اسلام آباد: (روزنامہ دنیا) سپریم کورٹ نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی سعودی عرب میں ملازمت کا این او سی طلب کر لیا۔ عدالت نے سیکرٹری دفاع سے کہا ہے کہ فوجی افسران کی غیرملکی بیگمات کی بھی تفصیل مہیا کی جائے، دہری شہریت کے حامل 27 افسران کو نوٹس جاری کر کے ان سے جواب طلب کر لیا گیا۔
بدھ کو چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمرعطا بندیال اورجسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل بینچ نے دہری شہریت سے متعلق کیس کی سماعت کی، اس موقع پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے پیش ہو کر عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے نے دہری شہریت رکھنے والے افسران کے بارے میں ایک اضافی فہرست عدالت میں جمع کرا دی ہے جس کے مطابق اس وقت 27 ایسے سرکاری افسران ہیں جو دہری شہریت کے حامل ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیس کی پہلی سماعت کے موقع پرعدالت نے کہا تھا کہ ایک پاکستانی سفیر بھی دہری شہریت رکھتے ہیں لیکن چیک کرنے پر پتہ چلا کہ مذکورہ سفیر دہری شہریت نہیں رکھتے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہاں ایسے افسر بھی ہیں جن کے رشتہ دار دہری شہریت رکھتے ہیں۔ ہمیں سرکاری افسران کے رشتہ داروں کی دہری شہریت پر بھی تحفظات ہیں، متعدد سرکاری افسران کی بیویاں بھی دہری شہریت رکھتی ہیں، دہری شہریت کے بارے میں کچھ افسران نے خود بتایا اور کچھ افسران کو ایف آئی اے نے شناخت کر لیا۔
عدالت کے استفسار پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ افغانستان اور روس دہری شہریت کی اجازت نہیں دیتے۔ میں سمجھتاہوں کہ دہری شہریت رکھنے والوں کو سرکاری ملازم نہیں ہونا چاہیے، چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے مطابق ریٹائرمنٹ کے دو سال تک کوئی اور ملازمت نہیں کی جا سکتی، سربراہ بینچ نے ریمارکس دیئے کہ ریٹائرمنٹ کے فوری بعد آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل شجاع پاشا اورسابق آرمی چیف جنرل(ر)راحیل شریف نے بیرون ملک ملازمتیں اختیار کر لیں، بتایا جائے کیا فوجی افسران پرقانون کا اطلاق نہیں ہوتا، انہوں نے ریمارکس دیئے کہ جنرل پاشا کے پاس اہم معلومات ہیں، جنرل راحیل شریف نے بھی سعودی عرب میں ملازمت اختیار کی، کیا وفاقی حکومت سے اس کیلئے اجازت لی گئی؟
عدالت میں سیکرٹری دفاع نے پیش ہوکر بتایا کہ فوج میں دہری شہریت والا شخص بھرتی نہیں ہو سکتا کیونکہ قواعد اس کی اجازت نہیں دیتے۔ سیکرٹری دفاع نے بتایا کہ فوج میں کوئی بھی اہلکار یا افسر دہری شہریت کا حامل نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ایک پرفارما بنا کر تمام افسران سے معلومات حاصل کر کے عدالت کو آگاہ کریں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا فوجی افسران کی بیگمات غیر ملکی شہریت رکھ سکتی ہیں؟ اس پرسیکرٹری دفاع نے جواب دیا کہ غیر ملکی خاتون سے شادی کیلئے افسران کو آرمی چیف سے اجازت لینا پڑتی ہے۔
عدالت کو معاون وکیل نے بتایا کہ سابق سرکاری ملازمین کی ملازمت پر پابندی کا قانون 1966 کا ہے جس کے تحت ریٹائرمنٹ کے دو سال بعد کسی جگہ نوکری کی جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا قانون میں ایسی ملازمت کیلئے کسی این او سی کی گنجائش ہے؟ اٹارنی جنرل نے ہاں میں جواب دیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ این او سی وفاقی حکومت نے دینا تھا اور وفاقی حکومت کا مطلب کابینہ ہے۔ افسران کے پاس اہم معلومات ہوتی ہیں خدانخواستہ بیرون ملک جاتے ہوئے ان کے ساتھ کچھ ہو جائے، مجھے نہیں پتہ کہ وفاقی حکومت نے جنرل راحیل کو اجازت دی تھی۔
سیکرٹری دفاع نے کہا کہ حکومت نے این او سی دیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کس نے، کس طرح اور کس نوعیت کا این او سی دیا ہو گا۔ عدالت نے سابق فوجی افسروں کو جاری این او سی کی تفصیلات طلب کر لیں، سپریم کورٹ نے 27 غیر ملکی افسروں کو نوٹسز جاری کر دیئے، سیکرٹری دفاع کو 27 اگست تک تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دے دیا، بعد ازاں کیس کی سماعت 27 اگست تک ملتوی کردی گئی۔