23 اپریل…. کتابوں کا عالمی دن

Published On 23 April,2025 02:00 pm

لاہور: (شازیہ کنول) دنیا بھر میں 23 اپریل کو ’’کتابوں کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے، جس کا مقصد کتابوں کی اہمیت، مطالعے کی عادت کو فروغ دینا اور مصنفین کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے۔

یہ دن اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو (UNESCO) کے تحت ہر سال منایا جاتا ہے، کتابوں کے عالمی دن کا آغاز 1995ء میں جنرل اسمبلی کی باقاعدہ منظوری کے بعد ہوا، اس تاریخ کا انتخاب اس لئے کیا گیا کیونکہ اسی دن اسپین کے مشہور مصنف میگوئل ڈی سروانتیس(Miguel de Cervantes) اور انگلینڈ کے عظیم شاعر و ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر (William Shakespeare) نے وفات پائی تھی، یہ دن نہ صرف کتابوں بلکہ ادب، ثقافت اور زبانوں کے فروغ کا دن بھی ہے۔

کتاب کی اہمیت
کتاب انسان کی بہترین ساتھی ہے، یہ علم کا خزانہ، رہنمائی کا ذریعہ اور سوچنے کی صلاحیت کو نکھارنے والی شے ہے، کتابیں صرف معلومات فراہم نہیں کرتیں، بلکہ انسان کے اخلاق، شخصیت اور کردار کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں،
کتاب انسان کی بہترین دوست ہوتی ہے مگر افسوس کہ آج کے جدید دورمیں کتاب کی جگہ موبائل فون نے لے لی ہے، ہم اپنے اچھے دوست اور تنہائی کے بہترین ساتھی سے دور ہو رہے ہیں۔

کتاب ہماری اخلاقی و معاشرتی تربیت کرتی ہے اور ہم موبائل کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جو ہمیں فائدہ تو پہنچاتا ہے لیکن اس سے بہت زیادہ نقصان بھی ہوتا ہے، مگر ہماری آج کی نوجوان نسل کتاب سے فائدہ اٹھانے، اس کو پڑھ کر سیکھنے کی بجائے موبائل کی رنگینیوں میں کہیں کھو گئی ہے، نئی نسل کو کتاب سے دوستی اور پڑھنے کی طرف راغب کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

جدید دور اور کتاب
ڈیجیٹل دنیا کے بڑھتے ہوئے اثرات نے کتابوں کے روایتی انداز کو کسی حد تک کم ضرور کیا ہے، لیکن ای بکس (E-books) آڈیو بکس اور آن لائن لائبریریوں نے مطالعے کے نئے دروا کئے ہیں، اب کتابیں ایک کلک کی دوری پر ہیں اور لوگ زیادہ آسانی سے علم حاصل کر سکتے ہیں۔

مطالعہ کے فوائد
مطالعہ یعنی کتابوں، رسالوں، اخبارات یا کسی بھی علمی مواد کا باقاعدہ پڑھنا ایک ایسی عادت ہے جو انسان کی شخصیت کو سنوارتا ہے، علم میں اضافہ کرتا ہے اور سوچنے کی صلاحیت کو نکھارتا ہے، یہ ایک خاموش مشغلہ ضرور ہے، لیکن اس کے اثرات گہرے اور دیرپا ہوتے ہیں۔

مطالعہ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ انسان کے علم میں اضافہ کرتا ہے، دنیا کے مختلف علوم، تاریخ، سائنس، ادب، دین، سیاست اور معاشرت جیسے شعبے صرف مطالعے کے ذریعے ہی سمجھ میں آتے ہیں، مطالعہ انسان کو باشعور اور باخبر بناتا ہے، کتابوں کا مطالعہ انسان کو روزمرہ کی پریشانیوں سے نکال کر ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے، اچھا ادب پڑھنے سے دل کو سکون ملتا ہے، خیالات مثبت ہوتے ہیں اور انسان کا ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے۔

مطالعہ انسان کی زبان، الفاظ کے ذخیرے (Vocabulary) اور تحریری و تقریری صلاحیتوں کو بہتر بناتا ہے، جو افراد باقاعدہ مطالعہ کرتے ہیں، ان کی گفتگو مہذب، شائستہ اور مؤثر ہوتی ہے، کہانیوں، ناولوں اور شاعری کا مطالعہ قاری کو ایک نئی دنیا سے روشناس کراتا ہے، وہ کرداروں کے ساتھ جیتا ہے، مناظر کو اپنے ذہن میں تخلیق کرتا ہے اور تخیل کی ایسی دنیا میں پرواز کرتا ہے جہاں کوئی حد نہیں۔

مطالعہ سے سوچنے کا انداز مہذب اور وسیع ہوتا ہے، انسان دوسروں کے نظریات کو سمجھنا سیکھتا ہے، وہ زیادہ بردبار، باشعور اور بامقصد بنتا ہے، مطالعہ کا شوق رکھنے والے لوگ اکثر زندگی میں زیادہ کامیاب ہوتے ہیں، وہ وقت کا صحیح استعمال کرنا جانتے ہیں، خود اعتمادی رکھتے ہیں اور مختلف مسائل کا حل ڈھونڈنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

قرآن، حدیث اور دیگر اسلامی کتب کا مطالعہ انسان کے روحانی پہلو کو اجاگر کرتا ہے، مطالعے کے ذریعے انسان اپنے خالق، اپنی ذات اور اپنے مقصدِ حیات کو بہتر انداز میں سمجھتا ہے، مطالعہ ایک ایسی عادت ہے جو انسان کو تنہا نہیں چھوڑتی، یہ ہر عمر، ہر حال اور ہر مقام پر ساتھ دیتی ہے، ہمیں خود بھی مطالعے کو معمول بنانا چاہیے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دینی چاہیے، کیونکہ: ’’جو لوگ کتابوں سے دوستی کرتے ہیں، وہ کبھی تنہا نہیں ہوتے‘‘

پاکستان میں کتب بینی کی صورتِ حال
پاکستان میں کتابوں سے وابستگی کا رجحان ماضی میں بہت مضبوط تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مطالعے کی عادت کمزور پڑی ہے، سوشل میڈیا، موبائل فون اور دیگر مصروفیات نے نوجوان نسل کو کتابوں سے دور کر دیا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ سکولوں اور کالجوں میں لائبریریوں کو فعال بنایا جائے، مطالعے کے مقابلے اور تقریبات منعقد کی جائیں، کتاب میلے (Book Fairs) باقاعدگی سے منعقد ہوں، مصنفین اور قاری کے درمیان رابطہ بڑھایا جائے۔

کتابوں کا عالمی دن ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ مطالعہ صرف تعلیم کیلئے نہیں بلکہ شخصیت کی تکمیل کیلئے بھی ضروری ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم خود بھی کتاب پڑھیں اور دوسروں کو بھی اس کی طرف راغب کریں کیونکہ مشہور مقولہ ہے: ’’کتابیں زندگیاں بدل دیتی ہیں‘‘۔

شازیہ کنول شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، مختلف اخبارات اور ویب سائٹس کیلئے باقاعدگی کے ساتھ لکھتی ہیں۔