لندن: (ویب ڈیسک) سائنسدانوں نے یورپی ملک سپین سے ایشیائی ملک ایران تک کے پہاڑی سلسلوں میں گمشدہ براعظم کے حصوں کو دریافت کر لیا ہے۔ گمشدہ براعظم کی باقیات 140 ملین (تقریباً 10 کروڑ 40 لاکھ) سال بعد ملی ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق نیشنل جیو گرافک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سائنسدانوں نے براعظم دریافت کیا ہے، گریٹر ایڈریا نامی براعظم یورپ سے ٹکرانے کے بعد زمین، سمندر کے اندر دفن ہو گیا جبکہ ملبہ پہاڑوں کی شکل اختیار کرگیا اور کروڑوں سال بعد بھی باقیات موجود ہیں۔ سائنسدانوں کی اس تحقیق میں زمین کی 24 کروڑ سال پرانی تاریخ کو ایک مرتبہ پھر مرتب کیا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق یہ بحیرہ روم کے علاقے کی ارضیاتی سٹڈی ہے۔ اس ریسرچ میں یورپی ملک سپین سے لے کر ایران تک کے پہاڑی سلسلوں میں ماضی قدیم میں گمشدہ ہونے والے براعظم کے حصوں کو دریافت کیا گیا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ گریٹر ایڈریا سے ٹکراﺅ کے بعد ممکنہ طور پر اٹلی، ترکی، یونان اور جنوب مشرقی یورپ میں پہاڑی سلسلے بنے۔
تحقیقی ٹیم کے قائد اور ہالینڈ کی یوٹریکٹ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈووی وان ہینسبرگن کا کہنا تھا کہ ایڈریا کبھی زمانہ قدیم کے سپر براعظم گونڈوانا کا حصہ ہوا کرتا تھا جو تقسیم ہوکر افریقا، انٹارکٹیکا، جنوبی امریکا، آسٹریلیا، ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے بڑے حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔
خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ 24 کروڑ سال پہلے گریٹر ایڈریا گونڈوانا سے الگ ہوا اورخود براعظم کی شکل اختیار کرلی، مگر بیشتر حصہ سمندر کے اندر ڈوب گیا تھا اور سائنسدانوں کے خیال میں براعظم میں مختلف جرائز کا گروپ بن گیا جو کہ برطانیہ یا فلپائن جیسے ہوں گے۔
رپورٹ کے مطابق 24 کروڑ سال پہلے براعظم شمال کی جانب بڑھنے لگا اور 10 سے 12 کروڑ سال قبل اس کا ٹکراؤ یورپ سے ہوا جس کے بعد وہ نیچے کی جانب دھنسنے لگا تاہم اسکی چٹانیں بہت ہلکی تھیں تو زمین کی پرت میں غائب نہیں ہوئیں۔ ان دونوں کے ٹکڑاﺅں سے عظیم پہاڑی سلسلے جیسے کوہ الپس کی بنیاد بنی اور ٹکڑاﺅ لاکھوں یا کروڑوں برسوں میں مکمل ہوا ہو گا کیونکہ ہر براعظم ایک سال میں محض 4 سینٹی میٹر ہی آگے بڑھتا ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق سست رفتاری کے باوجود ٹکراﺅ نے گمشدہ براعظم کو یورپی براعظم کی تہہ کہ نیچے گہرائی میں دبا دیا اور اب باقیات ایک اسرار ہیں، یہ حقیقت کہ باقیات مغربی یورپ سے مشرق وسطیٰ تک پھیلی ہوئی ہیں، تحقیق کرنا اور اسےثابت کرنا سائنسدانوں کے لیے مشکل امر تھا جسکے لیے انہوں نے 30 ملکوں کے جیالوجی ڈیپارٹمنٹس کے مرتب کردہ ڈیٹا پر 10 سال کام کیا اور بالاخر الگ الگ ٹکڑوں میں موجود معلومات کو جوڑ کر یہ صورتحال واضح کی ہے۔