لاہور: (دنیا نیوز) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنما فواد چودھری اور حماد اظہر انسداد دہشت گردی عدالت میں گرفتار ہونے سے بال بال بچ گئے۔
انسداد دہشت گردی عدالت لاہور میں ظل شاہ قتل، جلاؤ گھیراؤ اور پولیس پر تشدد کے مقدمے میں فواد چودھری اور حماد اظہر کی عبوری ضمانت کی درخواستوں پر سماعت ہوئی، جس میں فاضل جج نے پولیس اہلکار کو ہدایت کی کہ دونوں کو آتے ہی گرفتار کر لیا جائے۔
اس موقع پر حماد اظہر اور فواد چودھری انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پہنچ گئے، جس پر جج نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ عدالت کا حکم لکھوانے سے پہلے پیش ہوگئے، لہٰذا گرفتاری کا حکم واپس لیتا ہوں، دونوں نے ضمانتی مچلکے جمع نہیں کروائے، آپ دونوں آج تک عبوری ضمانت میں نہیں تھے، آپ کو پولیس گرفتار کر سکتی تھی۔
فواد چودھری نے جواب دیا شکر ہے پولیس کو پتا نہیں چلا۔
یہ بھی پڑھیں:آئین کے تحت سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہے: فواد چودھری
کیس کی سماعت کے آغاز میں جے آئی ٹی کے سربراہ عمران کشور عدالت کے روبرو پیش ہوئے، دوران سماعت فواد چودھری کی جانب سے مقدمے میں ڈسچارج کرنے کی استدعا کی گئی، جس پر فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ ابھی تک کے ضمانتی مچلکے جمع نہیں ہوئے اور آپ ڈسچارج مانگ رہے ہیں، یہاں میں کچھ کہہ دو تو پھر ایک طوفان آ جائے گا، یہ اختیار میرے پاس نہیں ہے۔
فواد چودھری نے کہا کہ قانون آپ کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے اختیارات تفویض کرتا ہے، جس پر جج نے ریمارکس دیئے کہ یہ اختیارات ایڈمن جج استعمال کر سکتا ہے۔
رہنما پی ٹی آئی فواد چودھری نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ میں عدالت کو کچھ آگاہ کرنا چاہتا ہوں، ہائیکورٹ میں جے آئی ٹی کو چیلنج کر رکھا ہے، جس پر جج نے کہا کہ ہائیکورٹ نے کام سے نہیں روکا۔
فواد چودھری نے عدالت کو جواب دیا کہ بالکل ہائیکورٹ نے تفتیش سے منع نہیں کیا، سپریم کورٹ کے احکامات موجود ہیں، اس سے آپ ہدایات لیں، ہمیں مقدمے سے ڈسچارج کیا جائے، عدلیہ کی عزت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
جج نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی کے سربراہ بھی آپ کو گرفتار کرنے پہنچ گئے ہیں، عدالت نے جے آئی ٹی کے سربراہ عمران کشور کو بتایا کہ انہوں نے ضمانتی مچلکے جمع کروا دیئے ہیں۔
عدالت میں حماد اظہر اور فواد چودھری کے وکلاء کے دلائل مکمل ہوگئے۔
عدالت نے کہا کہ دلائل اس لئے سن لیے ہیں تاکہ آئندہ کیس دلائل کی وجہ سے نہ رہ جائے، اس کیس میں ابھی ایک ملزم نہیں آیا، کیس کا فیصلہ اکٹھا ہی کریں گے۔
اس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت کچھ دیر کے لئے ملتوی کر دی۔