پی پی 7 : دو بڑی پارٹیوں کے سرکردہ رہنماءسرگرم، تنظیمی عہدے دار غائب

Published On 06 July,2022 04:56 pm

لاہور: (دنیا الیکشن سیل) پنجاب میں عام انتخابات سے قبل 17 جولائی کو صوبائی اسمبلی کی 20 نشستوں پر سیاسی جماعتوں میں ایک ایسا سیاسی معرکہ ہونے جا رہا ہے جو کہ ناصرف پنجاب میں سیاسی بحران کو ختم کرے گا بلکہ اگلے وزیراعلیٰ کا انتخاب بھی انہی سیٹوں پر منحصر ہے۔ ان ضمنی انتخابات میں ملک کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔

 

راولپنڈی جو کہ ماضی میں مسلم لیگ ن کا مضبوط قلعہ سمجھا جاتا تھا، مگر گزشتہ انتخابات میں مسلم لیگ کو اصل ضرب اسی ضلع سے پڑی تھی اور مسلم لیگ ن کو اپنے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی شکست سمیت بڑے بڑے اپ سیٹ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس مرتبہ راولپنڈی کے حلقہ پی پی 7 سے چھ امیدواران انتخابی میدان میں اتر رہے ہیں۔ حلقہ پی پی 7 میں کل 3 لاکھ 35 ہزار 295 ووٹ رجسٹرڈ ہیں، جن میں سے ایک لاکھ 71 ہزار 464 مرد ووٹرز جبکہ ایک لاکھ 63 ہزار 831 خواتین ووٹرز حق رائے دہی استعمال کریں گے۔

حلقہ پی پی 7 راولپنڈی کے اہم علاقوں کہوٹہ،کلرسیداں، مٹور ، نرڑ، بیور، نارہ، کلر سیداں شہر، چوآخالصہ اور دوبیرن کلاں پر مشتمل ہے۔ پی پی 7 میں دو بڑی برادریوں راجپوت اور اعوان کا اثر رسوخ ہے جبکہ دیگر برادریوں میں جنجوعہ ، ملک برادری، ستی برادری، عباسی برادری، منہاس راجپوت برادری، سردار برادری اور کیانی برادری شامل ہیں۔ حلقے کی آبادی چار لاکھ سے زائد ہے۔ راولپنڈی شہر کے اس حلقے میں سیاحتی مقام نرڑ کے مقام پر ہے، جس کو پنج پیرراکز کہتے ہیں۔ اس کو اب مری کا ہم پلہ سمجھا جاتا ہے اور اس سیزن میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

اس حلقے میں قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 57آتا ہے جس میں صداقت علی عباسی ایم این اے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی کا تعلق بھی اسی حلقے سے ہے اور وہ کھل کر راجہ صغیر کی حمایت اور مہم چلا رہے ہیں۔ گزشتہ ا لیکشن میں مسلم لیگ ن کی اس حلقے میں کاررکردگی زیادہ متاثر کن نہیں تھی اور وہ یہاں سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹیں ہار گئی تھیں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقے میں کل 266 پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں، جن میں سے 36 مردوں، 35 خواتین اور195 مشترکہ پولنگ اسٹیشن ہیں، جبکہ قائم کیے جانے والے پولنگ بوتھ کی تعداد 789 ہے ، جن میں سے 396 مردوں اور 393 خواتین کے لیے مختص ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن نے راجہ صغیر احمد کو انتخابی میدان میں اتارا ہے، جو دوسری مرتبہ انتخابی عمل میں قسمت آزمانے جارہے ہیں۔ راجہ صغیر احمد نے 2018ء کے عام انتخابات میں اس حلقے سے آزاد حیثیت سے کامیابی حاصل کی تھی، جس کے بعد انہوں نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی، تاہم 16 اپریل کو انہوں نے پارٹی سے اختلافات کے باعث وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے حمزہ شہباز کی حمایت میں ووٹ دیا۔ عدالت کی جانب سے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کی بنیاد پر انہیں نااہل قرار دے دیا گیا تھا، جس کے باعث انہیں مسلم لیگ ن نے ٹکٹ جاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

مسلم لیگ ن کی جانب سے شاہد خاقان عباسی، ملک ابرار اور جاوید اخلاص، راجہ صغیر احمد کی الیکشن مہم کے حوالے سے متحرک دکھائی دے رہے ہیں۔ راجہ صغیر احمد کو حکومتی اتحاد بشمول پیپلز پارٹی کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف نے تجربہ کار سیاست دان کرنل (ر) محمد شبیر اعوان پر انحصار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کرنل (ر) محمد شبیر اعوان نے اپنا پہلا الیکشن 2008ء میں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر لڑا اور رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2013ء کے الیکشن میں بھی وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے جس میں انہیں ناکامی ہوئی۔ جس کے بعد انہوں نے دسمبر 2013 ء میں تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا۔ 2018ء کے عام انتخابات میں انہوں نے بلے کے نشان پر قومی اسمبلی کی نشست کیلئے انتخاب لڑنے کی خواہش ظاہر کی تاہم پی ٹی آئی نے عامر کیانی کو ٹکٹ جاری کیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے کرنل (ر)محمد شبیر اعوان کی حمایت میں صداقت علی عباسی، طارق محمود اور کرنل (ر) اجمل متحرک نظر آ رہے ہیں۔

دیگر جماعتوں کی بات کی جائے تو جماعت اسلامی پاکستان نے تنویر احمد جبکہ تحریک لبیک پاکستان نے منصور ظہور کو ایک بار پھر آزمانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تحریک لبیک کے امیدوار کو تحصیل کلرسیداں اور کہوٹہ میں کافی پزیرائی مل رہی ہے۔ اس حلقے میں لوگ ووٹ برادری اور شخصیت کو دیکھ کر ڈالتے ہیں۔

پی پی 7 کو پی ٹی آئی کا ہوم گرانڈ بھی کہا جا رہا ہے، جبکہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) ظہیر الاسلام، بریگیڈیر (ر) شارالحق جنجوعہ بھی اس مرتبہ پی ٹی آئی کے امیدوار کرنل (ر) محمد شبیراعوان کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس حلقے میں مسلم لیگ ن نے 2018 ء کے عام انتخابات میں راجہ محمد علی جو کہ راجہ ظفر الحق کے صاحبزادے ہیں کو میدان میں اتارا تھا جو کہ اس معرکے میں دوسرے نمبر پر رہے تھے اور انہوں نے 42 ہزار 459 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ مسلم لیگ ن کے موجودہ امیدوار نے اس وقت آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا تھا اور 44 ہزار 363 ووٹ لیکر کامیاب ہو ئے تھے۔

پی پی 7 میں تحریک لبیک پاکستان جو کہ اپنی انتخابی مہم بھی زور و شور سے چلا رہی ہے اس حلقے میں حیران کن نتائج دینے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس کے امیدوار منصور ظہور نے 2018 کے عام انتخابات میں 15 ہزار 68 ووٹ حاصل کیے تھے۔ حلقے میں پیپلز پارٹی کا ووٹ فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے ، اگر پیپلز پارٹی نے بھی کھل کر مسلم لیگ ن کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کر دیا تو مسلم لیگی امیدوار کو اس سے کافی فائدہ ہو گا۔

پی پی 7 سے کسی بھی خاتون امیدوار نے انتخابی میدان میں حصہ نہیں لیا۔ اس حلقے میں قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 57آتا ہے جس میں صداقت علی عباسی ایم این اے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی کا تعلق بھی اسی حلقے سے ہے اور وہ کھل کر راجہ صغیر کی حمایت اور مہم چلا رہے ہیں۔ گزشتہ ا لیکشن میں مسلم لیگ ن کی اس حلقے میں کاررکردگی زیادہ متاثر کن نہیں تھی اور وہ یہاں سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹیں ہار گئی تھیں۔ راجہ صغیر کی مسلم لیگ ن میں شمولیت کے بعد اس حلقے میں اب کوئی ایسا آزاد امیدوار موجود نہیں ہے جو کہ انتخابی عمل میں بازی پلٹنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔