اسلام آباد: (دنیا نیوز) چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار 2 سال 17 دن عہدے پر رہنے کے بعد ریٹائر ہو گئے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے 31 دسمبر 2016ء کو بطور چیف جسٹس اپنے عہدے کاحلف لیا اور اس دوران انسانی حقوق کے 208 مقدمات سنے جبکہ 43 از خود نوٹس لیے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے پہلا از خود نوٹس 6 فروری 2017ء کو تفتیش کے نظام میں بہتری کے حوالے سے لیا۔ چیف جسٹس نے منرل واٹر کی فروخت، کوئٹہ میں درختوں کی کٹائی، ہاؤسنگ سوسائٹیز کا فرانزک آڈٹ، شاہ رخ جتوئی قتل کیس، پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس اور اثاتہ جات، ججز اور سرکاری افسران کی دوہری شہریت، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے میڈیا اشتہارات میں ذاتی تشہیر، ارکان پارلیمنٹ کی دوہری شہریت، کسانوں کو گنے کی قمیت کی ادائیگی، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے لگثری گاڑیوں کے استعمال اور نابینا یوسف سلیم کی بطور سول جج تقرری کے حوالے سے ازخود نوٹسز لیے۔
کراچی پولیس مقابلے میں دس سالہ امل کی ہلاکت، ملک بھر سے بل بورڈ ہٹانے کا معاملہ، ٹی ٹاک شوز میں زیر التوا مقدمات پر بحث، نجی ہسپتالوں میں صحت کی سہولیات اور سکولز میں بچوں کو منشیات کی فراہمی پر بھی چیف جسٹس ثاقب نثار نے از خود نوٹسز لیے۔
آخری دو ازخود نوٹس آئی جی اسلام آباد تبادلہ کیس اور میڈیا میں عدالتی حکم کی غلط رپورٹنگ پر لیے گئے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کل انتیس ازخود نوٹس کیس نمٹائے، بارہ زیر سماعت ہیں جبکہ دو میں فیصلہ محفوظ ہو چکا ہے
بطور چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا بھرپور دور اختتام پذیر ہو گیا ہے، انہوں نے اپنی مدت میں پاناما کے اہم ترین مقدمے کی سماعت کی جس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کی قسمت کا بھی فیصلہ چیف جسٹس کے ہاتھوں ہوا۔