لاہور: (ارسلان رفیق بھٹی) ملک میں سیاسی درجہ حرارت مسلسل بلندی کی جانب جا رہا ہے، مرکز اور خاص طور پر پنجاب میں محاذ آرائی وقت کے ساتھ ساتھ کبھی زیادہ اور کبھی کم لیکن ہر وقت کسی نہ کسی صورت اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس ساری صورت حال میں سب سے بڑا صوبہ پنجاب جو کبھی ن لیگ کا گڑھ تھا اس میں ن لیگ کی تقریباً سینئر قیادت کہیں نظر نہیں آتی۔
میاں نواز شریف ضمانت کے بعد بھی مختلف کیسز میں پیش ہو رہے ہیں اور میاں شہباز شریف کافی عرصے سے جسمانی ریمانڈ پر نیب لاہور کے مہمان بنے ہوئے ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں پنجاب میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز پوری کوشش کر رہے ہیں کہ پارٹی کو منظم رکھیں اور جتنے لوگ ن لیگ کی چھتری کے زیر سایہ ہیں ان کا ’’نمبر‘‘ پورا رکھنے کے لئے بھی ’’جتن‘‘ کرتے رہتے ہیں اور وہ کسی حد تک اس میں کامیاب بھی ہیں۔ سیاسی جماعت کوئی بھی ہو قیادت کے بغیر نہیں چلتی لیکن اگر قیادت ’’خود ساختہ‘‘ خاموشی اختیار کر لے تو خاصی معنی خیز ہوتی ہے۔ اسی طرح کی صورت حال آج کل میاں نواز شریف کی ہے، آزاد بھی ہیں اور بول بھی نہیں رہے خاموشی کی وجہ کسی کو شاید معلوم ہو لیکن سب ہی بتانے سے گریز کرتے ہیں۔
میاں صاحب بولتے تو ضرور ہیں لیکن انتہائی مختصر اور سیاست سے خاصے دور رہ رہے ہیں۔ اب تو جاتی امرا میں غیر رسمی مشاورتی اجلاس بھی نہیں ہو رہے۔ ہر ہفتے میں ایک دن سیاسی بیٹھک ہوتی تھی اور ن لیگ کے مستقبل کے بارے میں کچھ نہ کچھ سامنے آجاتا تھا لیکن کافی عرصے سے کوئی سیاسی بیٹھک نہیں ہوئی اور کچھ قریبی سیاسی رفقائے کار جاتی امرا جاتے ضرور ہیں لیکن اب واپسی پر میڈیا کے ساتھ بات نہیں کرتے۔ ن لیگ وہ سیاسی جماعت ہے جو ماضی میں میاں نواز شریف کے سیاسی تدبر اور میاں شہباز شریف کی انتظامی صلاحیتوں کی وجہ سے بر سر اقتدار رہی لیکن اس میں ووٹر صرف اور صرف میاں نواز شریف کی جانب دیکھ کر ووٹ بیلٹ بکس میں ڈالتے رہے ہیں اور ان کی ایک آواز پر لبیک کہتے رہے ہیں۔
اب بھی ن لیگ کا ووٹر نواز شریف کی طرف دیکھ رہا ہے کہ کب وہ پوری طرح سیاست میں ’’پردے کے پیچھے ‘‘ رہ کر ہی آواز بلند کریں تو وہ کچھ ہل جل کریں لیکن کیا نواز شریف کے خلاف جو کیسز زیر التوا ہیں ان کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ کھل کر سیاسی بات کہہ سکیں یا اسی طرح ڈھکے چھپے الفاظ میں کام چلائیں گے۔ اس حوالے سے واقفان حال کہتے ہیں کہ نواز شریف ابھی تیل اور اس کی دھار کا جائزہ لے رہے ہیں اور وقت آنے پر ضرور اپنا سیاسی کردار نبھائیں گے۔ اگر ن لیگ نے اپنے آپ کوسیاسی طو ر پر زندہ رکھنا ہے تو اسے میاں نواز شریف کی اشد ضرورت ہے کیونکہ بظاہر ابھی شہباز شریف کو تو کسی بھی قسم کی رعایت ملنے کی امید نہیں اور حمزہ شہباز بھی تیزی دکھانے کی پوزیشن میں نہیں۔ سوال پھر وہی ہے کہ نواز شریف کیا اب سیاسی کردار ادا کریں گے یا نہیں فیصلہ تو شاید میاں نواز شریف بھی نہ کر سکیں لیکن بہرحال موجودہ وقت میں اگر کوئی ن لیگ کو بچا سکتا ہے تو وہ صرف میاں نواز شریف ہی ہیں۔