ماہِ صیام: صبر و برداشت کا مہینہ

Published On 07 March,2025 09:51 am

لاہور: (مولانا رضوان اللہ پشاوری) امام بیہقی شعب الایمان میں حضرت سلمان فارسیؓ سے راویت کرتے ہیں، کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے شعبان کے آخر دن میں وعظ فرمایا! اے لوگو تمہارے پاس عظمت والا، برکت والا مہینہ آیا، وہ مہینہ جس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

اس کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کئے اور اس کی رات میں قیام تطوع (یعنی سنت) جو اس میں نیکی کا کوئی کام کرے تو ایسا ہے جیسے اور کسی مہینے میں فرض ادا کیا اور اس میں جس نے فرض ادا کیا تو ایسا ہے جیسے اور دنوں میں 70 فرض ادا کئے، یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے اور یہ مہینہ مواسات کا ہے اور اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھایا جاتا ہے، جو اس میں روزہ دار کو افطار کرائے،اس کے گناہوں کی مغفرت ہے اور اس کی گردن آگ سے آزاد کر دی جائے گی اور اس افطار کرانے والے کو ویسا ہی ثواب ملے گا جیسا روزہ رکھنے والے کو ملے گا‘‘۔

ہم نے عرض کی، یا رسول اللہ ﷺ! ہم میں کیا ہر شخص وہ چیز نہیں پاتا، جس سے روزہ افطار کرائے؟ حضورﷺ نے فرمایا: اللہ یہ ثواب اس شخص کو دے گا، جو ایک گھونٹ دودھ یا ایک خُرما یا ایک گھونٹ پانی سے روزہ افطار کرائے اور جس نے روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا، اس کو اللہ ایسے حوض سے پلائے گا کہ کبھی پیاسا نہ ہوگا یہاں تک کہ جنت میں داخل ہو جائے۔

یہ وہ مہینہ ہے کہ جس کا اوّل رحمت ہے اور اس کا وسط مغفرت ہے اور اس کا آخر جہنم سے آزادی ہے جو اپنے غلام پر اس مہینے میں تخفیف کرے یعنی کام میں کمی کرے، اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا اور جہنم سے آزاد فرما دے گا‘‘ (شعب الایمان:3608)

یہ مہینہ واقعی صبر کا ہے اس لئے کہ اس میں جائز، حلال اور طیّب چیزوں سے بھی انسان صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک رکتا ہے، یہ رکنا دراصل صبر اور تقویٰ کی تربیت ہے، انسان کی نفسانی خواہشات میں حدود کو پھلانگنے کا رجحان پایا جاتا ہے، جبکہ تقویٰ یہ ہے کہ انسان سارا سال اپنے آپ کو حرام سے روکے رکھے، گناہ سے باز آ جائے اور منکرات سے اجتناب کرے، اسی کا نام صبر ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ کسی تکلیف یا مصیبت کو خندہ پیشانی سے برداشت کر لینا ہی صبر ہے، جبکہ حقیقت میں صبر کا مفہوم بہت جامع اور ہمہ گیر ہے، چناںچہ امام راغب اصفہانیؒ نے صبر کے تین درجے مقرر کئے ہیں۔

(1) گناہوں سے اپنے آپ کو روکنا۔

(2) اطاعت، بندگی اور دینی فرائض کی ادائیگی پر کاربند ہونا۔

(3) مشکلات اور سختیوں میں صبر کرنا۔

خاص طور پر اقامت دین کی جدوجہد کے مراحل میں آنے والی سختیوں کو جھیلنا، برداشت کرنا اور پھر استقامت کا مظاہرہ کرنا، اس اعتبار سے گویا پورا دین صبر کی تشریح میں شامل ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر صبر کو جنّت کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔

’’اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف و کمی کر دے گا، اللہ اس کی مغفرت فرمائے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے گا‘‘

یہ بھی گویا ہمدردی اور غمگساری کا ایک مظہر ہے کہ اپنے ماتحت لوگوں کی ذمے داریوں میں تخفیف کر دی جائے۔

رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں کہ انہیں روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘ ایک حدیث میں اس کی وجہ بھی بیان کی گئی ہے: جو شخص (روزہ رکھ کر) جھوٹی بات بنانا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ محض اپنا کھانا پینا چھوڑ دے، اصل میں روزہ وہی ہے جو مکمل آداب اور شرائط کے ساتھ رکھا جائے۔

رمضان واقعی نیکیوں کی برسات کا مہینہ ہے، اس مہینے میں اگر ہم صحیح معنوں میں محنت کر کے اپنے نفس کی تربیت کر لیں تو اس کا اور کوئی بدل نہیں ہو سکتا اور اگر ہم اس ماہ میں بھی اللہ کی رحمت سمیٹنے اور اپنی بخشش کرانے سے محروم رہ جائیں تو پھر ہم سے بڑا بدنصیب اور کوئی نہیں ہو سکتا۔

عبد اللہ بن عکیم جہنیؓ سے روایت ہے کہ جب رمضان المبارک کی آمد ہوتی تو امیر المومنین حضرت عمر فاروقِ اعظمؓ یکم رمضان المبارک کی شب نماز مغرب کے بعد لوگوں سے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرماتے: ’’اے لوگو! بیشک اس مہینے کے روزے تم پر فرض کئے گئے ہیں، البتہ اس میں نوافل کی ادائیگی فرض نہیں ہے، لہٰذا جو بھی نوافل ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ نوافل ادا کرے، تم میں سے ہر بندہ یہ کہتے ہوئے ڈرے کہ میں تو اس لئے روزے رکھ رہا ہوں کہ فلاں بھی روزے رکھ رہا ہے، میں تو اس لئے نوافل ادا کر رہا ہوں کہ فلاں بھی نوافل ادا کر رہا ہے، جو بھی روزے رکھے یا نوافل ادا کرے وہ اللہ کی رضا کیلئے رکھے‘‘۔

امام بیہقی شعب الایمان میں عبداللہ بن عمروؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: روزہ و قرآن بندہ کیلئے شفاعت کریں گے، روزہ کہے گا، اے رب ! میں نے کھانے اور خواہشوں سے دن میں اسے روک دیا، میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما، قرآن کہے گا، اے رب ! میں نے اسے رات میں سونے سے باز رکھا، میری شفاعت اس کے بارے میں قبول کر، دونوں کی شفاعتیں قبول ہوں گی۔

رمضان المبارک میں مالی حقوق جیسے زکوٰۃ، عشر، صدقہ الفطر، نذر وغیرہ کی ادائیگی کی جاتی ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ ان سے متعلق تفصیلی احکامات پہلے سے معلوم کر لئے جائیں، اسی طرح جو مالی حقوق ذمہ میں ہوں ادا کرنے کی صلاحیت بھی ہو تو رمضان سے پہلے ادا کر لیں، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: مالدار آدمی کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ (بخاری)

امام بیہقی جابر بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: ’’میری اْمّت کو ماہِ رمضان میں پانچ باتیں دی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں، اوّل یہ کہ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ ان کی طرف نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف نظر فرمائے گا، اسے کبھی عذاب نہ کرے گا، دوسری یہ کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بُو اللہ کے نزدیک مُشک سے زیادہ اچھی ہے۔

تیسری یہ ہے کہ ہر دن اور ہر رات میں فرشتے ان کیلئے استغفار کرتے ہیں، چوتھی یہ کہ اللہ جنت کو حکم فرماتا ہے کہ مستعد ہو جا اور میرے بندوں کے لئے مزّین ہو جا قریب ہے کہ یہاں آ کر آرام کریں، پانچویں یہ کہ جب آخر رات ہوتی ہے تو ان سب کی مغفرت فرما دیتا ہے، کسی نے عرض کی، کیا وہ شبِ قدر ہے؟ فرمایا: نہیں کیا تو نہیں دیکھتا کہ کام کرنے والے کام کرتے ہیں، جب کام سے فارغ ہوتے ہیں اْس وقت مزدوری پاتے ہیں۔

رضوان اللہ پشاوری ایک عالم دین ہونے کے ساتھ صحافی بھی ہیں، ان کے مضامین مختلف جرائد اور ویب سائٹس پر شائع ہوتے ہیں۔