لندن: (حسیب ارسلان) برطانیہ کے شاہی محل ونڈسر کیسل کے سٹیٹ اپارٹمنٹس میں ہزار سالہ تاریخ میں پہلی بار افطار کا اہتمام کیا گیا جو بین المذاہب ہم آہنگی اور سماجی اتحاد کی ایک روشن مثال بن گیا۔
افطاری میں 350 مسلمان شریک تھے، افطار کیلئے جمع مسلمانوں کیلئے سینٹ جارج ہال میں دسترخوان بچھایا گیا جو ریاستی مہمانوں کیلئے مختص ہے، افطار سے پہلے ونڈسر کیسل میں مغرب کی اذان بھی دی گئی، اس موقع پر مسلم کمیونٹی، معززین اور مختلف مذاہب کے رہنما ایک ساتھ روزہ افطار کرنے کے لیے جمع ہوئے۔
یہ محض ایک افطار نہیں تھا بلکہ ایک ایسے معاشرے کے تصور کو تقویت دینے کی ایک عملی کوشش تھی جہاں مختلف مذاہب، ثقافتیں اور روایات ایک دوسرے کے ساتھ احترام اور ہم آہنگی کے ساتھ جُڑے ہوں، اذان کی آواز کا شاہی دیواروں میں گونجنا اور شرکاء کا مل کر کھجور سے روزہ افطار کرنا ایک ایسے نئے باب کی شروعات تھی جس میں مذہبی رواداری کو فروغ دینے کا واضح پیغام موجود تھا۔
اسی سلسلے میں بادشاہ چارلس اور ملکہ کمیلا کی جانب سے افطار کے لیے کھجوریں پیک کرنے کا منظر بھی عالمی سطح پر ایک مثبت پیغام بن کر ابھرا، یہ کوئی رسمی روایت نہیں تھی بلکہ اس عمل کے ذریعے انہوں نے واضح کیا کہ وہ مذہبی تنوع، اسلامی اقدار اور مسلمانوں کے جذبات کی نہ صرف قدر کرتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
بادشاہ چارلس ہمیشہ سے مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کے حامی رہے ہیں اور ان کا یہ عمل صرف ایک علامتی اقدام نہیں بلکہ ایک وسیع تر سوچ کا حصہ تھا، یہ دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ اگر دنیا میں امن، برداشت اور رواداری کو فروغ دینا ہے تو ہمیں ایک دوسرے کے مذاہب اور روایات کا احترام کرنا ہوگا۔
یہ واقعات مسلمانوں کے لیے بھی ایک سوچنے کا لمحہ ہیں کہ وہ اس مثبت پیغام کو کیسے آگے بڑھا سکتے ہیں، جب ایک غیر مسلم بادشاہ مسلمانوں کے روزے، افطار اور اسلامی روایات کو عزت دے سکتا ہے تو ہمیں بھی چاہیے کہ ہم دوسروں کے مذاہب اور ثقافتوں کے ساتھ اسی احترام کا مظاہرہ کریں۔
مسلمانوں کو دوسرے مذاہب کے ساتھ رواداری اور حسن سلوک کو فروغ دینا چاہیے، اسلام کی حقیقی تعلیمات یہی ہیں کہ دوسروں کے عقائد کا احترام کیا جائے اور ان کے ساتھ امن و محبت کا رویہ اپنایا جائے۔
افطار کے لیے کھجوریں پیک کرنا ایک فلاحی عمل ہے، جو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ دوسروں کی مدد کے لیے آگے بڑھنا کتنا ضروری ہے۔ مسلمانوں کو بھی اپنے ارد گرد ضرورت مندوں کی مدد کرنی چاہیے، چاہے وہ کسی بھی مذہب یا قوم سے تعلق رکھتے ہوں۔
برطانیہ میں بسنے والے مسلمانوں کو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تعلیم، معیشت، سیاست اور سماجی خدمات میں اپنی مثبت شناخت کو مزید اجاگر کرنا چاہیے، اس سے نہ صرف مسلمانوں کی شبیہہ بہتر ہوگی بلکہ دوسروں کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔
ونڈسر کیسل میں ہونے والا افطار اور شاہی خاندان کا مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی محض ایک علامتی واقعہ نہیں بلکہ ایک بڑا پیغام ہے، یہ ثابت کرتا ہے کہ مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے لوگ ایک دوسرے کے احترام کے ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔
مسلمانوں کو اس لمحے کو ایک موقع سمجھنا چاہیے اور اپنے کردار و عمل سے دنیا کو یہ باور کروانا چاہیے کہ اسلام امن، محبت اور برداشت کا مذہب ہے۔ یہی اصل اسلامی تعلیمات ہیں، اور یہی وقت کی سب سے بڑی ضرورت بھی ہے۔
رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں، جہاں ہم امتِ مسلمہ کے مظلوم بھائیوں کے لیے خصوصاً کشمیر، فلسطین اور دیگر خطوں میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے دعا کرتے ہیں، وہیں ہمیں اس ملک کو بھی اپنی دعاؤں میں شامل کرنا چاہیے جہاں ہماری چوتھی نسل پروان چڑھ رہی ہے، جہاں ہمیں مذہبی آزادی حاصل ہے، اور جہاں ہم اپنے دین پر عمل کر سکتے ہیں۔
یہ ملک نہ صرف ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہے بلکہ ہمارے بچوں کا مستقبل بھی اسی سرزمین سے جُڑا ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کے استحکام، امن، ترقی اور خیر و برکت کے لیے دعا کریں، تاکہ ہم اور ہماری آنے والی نسلیں محفوظ، باوقار اور خوشحال زندگی گزار سکیں۔