نئی دہلی: (ویب ڈیسک) بھارت میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں خوفناک حد تک اضافے کے بعد ہلاکتیں روز بروز بڑھ رہی ہیں، وباء نے روایتی انسانی ہمدردی کو بھی بظاہر ختم کر دیا ہے۔ لوگوں کو اپنے عزیز و اقارب کی لاشوں کو کندھا دینے کے لیے کرائے پر افراد حاصل کرنے پڑ رہے ہیں جبکہ مسلمان بے لوث خدمات انجام دینے لگے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق کورونا کی دوسری لہر نے ایسی دہشت پھیلا دی ہے کہ اب کسی کی موت پر تعزیت اور غمگساری کے لیے آنے کی بات تو دور، ان کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے چند لوگوں کو تلاش کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ حتی کہ قریبی رشتہ دار بھی متوفی کو کاندھا دینے سے کترا رہے ہیں، جس کی وجہ سے میت کو شمشان گھاٹ تک پہنچانا بھی ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ ایسے میں بعض لوگوں نے کرائے پر اپنی خدمات‘ فراہم کرنا شروع کردی ہیں۔ لاش کو منزل مقصود‘ تک پہنچانے کے لیے پانچ سے دس ہزار روپے تک فی کس ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔
ایسے حالات میں جب کہ کورونا سے موت ہوجانے والے لوگوں کی لاشوں کو شمشان گھاٹ لے جانے اور ان کی آخری رسومات ادا کرنے میں مدد کرنے کے لیے ان کے رشتہ دار بھی تیار نہیں ہورہے ہیں متعدد شہروں سے مسلم نوجوانوں کی طرف سے رضاکارانہ طورپر یہ خدمت انجام دینے کی خبریں مسلسل آرہی ہیں۔ مسلمان اجتماعی اور انفرادی دونوں ہی سطحوں پر یہ کام کر رہے ہیں اور ان کے خدمات کی تعریف بھی ہو رہی ہے۔
محمد سراج ایسے ہی لوگوں میں سے ایک ہیں جو اپنے دوست اور الہ آباد ہائی کورٹ کے جوائنٹ رجسٹرار ہیم سنگھ کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے چارسو کلومیٹر کا سفر طے کرکے ان کے گاؤں پہنچے۔ ہیم سنگھ کے رشتہ داروں نے آخری رسومات میں حصہ لینے سے منع کر دیا تھا۔ مدھیہ پردیش میں دو مسلم نوجوان اب تک سینکڑوں لاشوں کی آخری رسومات میں مدد کر چکے ہیں۔
تمل ناڈو کی ایک تنظیم مسلم مونیتر کزگم بڑے پیمانے پر یہ کام کر رہی ہے۔ اس تنظیم کے سکریٹری مجیب الرحمان نے کہا ہے کہ گزشتہ برس جب بعض لوگ دہلی میں تبلیغی جماعت کے مرکز سے واپس لوٹے تھے تو مسلمانوں کو وائرس پھیلانے والوں کے طور پیش کیا گیا تھا۔ ہمیں دلی تکلیف ہوئی تھی کیونکہ ہمارے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا گیا تھا۔ لیکن ہم نے کوئی احتجاج نہیں کیا اور خدمت کر کے ان کا جواب دینے کا فیصلہ کیا۔
ہندو قوم پرست حکمراں جماعت کے بعض رہنما مسلمانوں کی رضاکارانہ خدمات سے خوش نہیں ہیں۔ گزشتہ دنوں ریاست گجرات میں بی جے پی کی بڑودہ یونٹ کے صدر ڈاکٹر وجئے شاہ نے شمشان گھاٹ میں ایک مسلم نوجوان کی لاشوں کی آخری رسومات میں مدد کرنے پر ناراضگی ظاہر کی تھی۔
مودی نے اپنی متعدد تقریروں میں عوام کو آپدا میں اوسر‘ (مصیبت میں موقع) تلاش کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ لوگ ان کے اس جملے کو اب طنزیہ طور پر استعمال کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ مصیبت میں اس سے زیادہ بہتر موقع اور کیا ہوسکتا ہے۔
مشرقی دہلی میں بھی جب ایک خاتون کی موت ہوگئی تو رشتہ داروں کی موجودگی کے باوجود کوئی انہیں کاندھا دینے کے لیے تیار نہیں ہوا۔ مجبوراً ان کے بیٹے کو کاندھا دینے والوں کی خدمات‘ حاصل کرنی پڑی اور وہ اسے نگم بودھ شمشان گھاٹ لے گئے۔
حالات اتنے ابتر ہوگئے ہیں کہ آخری رسومات ادا کرنے کے لیے کوئی مرد نہیں مل پارہا ہے، جس کی وجہ سے گھر کی خواتین کو ہی اپنے والد یا شوہر کو مکھ اگنی‘ دینی پڑ رہی ہے۔ ہندو رسومات کے مطابق چتا پر لاش کو بالعموم کوئی مرد ہی آگ لگاتا ہے۔