سکردو: (دنیا نیوز) گلگت بلتستان حکومت کے وزیر راجہ ناصر علی خان نے کہا ہے کہ محمد علی سدپارہ اور دیگر کوہ پیما دنیا میں نہیں رہے، حکومت، فوج اور لواحقین سب اس رائے پر متفق ہیں۔
گلگت بلتستان حکومت کے وزیر سیاحت راجہ ناصر علی خان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ علی سدپارہ اور ساجد سدپارہ کو سول اعزازت سے نوازا جائے گا، وفاقی حکومت کو سکردو ائیر پورٹ کو علی سدپارہ سے منسوب کرنے کی تجویز پیش کی ہے، علی سدپارہ کے نام سے کوہ پیمائی کے لئے سکول قائم کیا جائے گا۔
راجہ ناصر علی کا کہنا تھا کہ حکومت قومی ہیرو علی سدپارہ کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے، حکومت علی سدپارہ کی فیملی کی مالی و اخلاقی معاونت کرے گی، قومی ہیرو کے بچوں کو تعلیمی سکالرز شپ دی جائے گی، حادثات کا شکار ہونے والے کوہ پیماؤں کے خاندانوں کی کفالت کے لئے باقاعدہ قانون بنایا جائے گا۔
اس موقع پر ساجد سدپارہ کا کہنا تھا کہ علی سدپارہ کے ٹو کی مہم جوئی کے دوران لاپتہ ہوئے، کے ٹو سر کرنے کے بعد واپسی پر حادثہ پیش آیا، کے ٹو نے انہیں ہمیشہ کیلئے اپنی آغوش میں لے لیا، سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن میں تمام دستیاب وسائل استعمال کیے گئے، میرا خاندان شفیق باپ سے محروم ہوا۔
ساجد سدپارہ نے مزید کہا کہ پاکستانی قوم محب وطن قومی ہیرو سے محروم ہوئی، دنیا بہادر اور باصلاحیت مہم جو سے محروم ہوئی، والد کے مشن کو جاری رکھوں گا، والد کے ادھورے خواب پورے کروں گا۔
خیال رہے لاپتہ پاکستانی کوہ پیما علی سدپارہ اور دو غیر ملکی کوہ پیما سردیوں میں بغیر آکسیجن کے ٹو کو سر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ نامور پاکستانی کوہ پیما محمد علی سد پارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے جان پابلو انتہائی بلندی پر پہنچنے کے بعد واپس نہیں پہنچ سکے۔
علی سدپارہ سمیت دیگر کوہ پیماؤں کا کیمپ سے رابطہ منقطع ہوا، ہیلی کاپٹر کے ذریعے کوہ پیما ٹیم کی تلاش کی گئی لیکن خراب موسم اور تیز ہواؤں کے باعث ریسکیو آپریشن کامیاب نہ ہو سکا۔ مہم جوئی میں علی سدپارہ کے ساتھ ان کے بیٹے ساجد سد پارہ بھی موجود تھے جو آکسیجن ریگولیٹر خراب ہونے پر بحفاظت کیمپ ون میں پہنچ گئے تھے۔
محمد علی سد پارہ نے 2016ء میں سردیوں کی مہم جوئی کے دوران پہلی بار نانگا پربت کو سر کیا تھا۔ انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے آٹھ ہزار میٹر کی آٹھ چوٹیاں فتح کرنے کے علاوہ ایک سال کے دوران آٹھ ہزار میٹر کی چار چوٹیاں سر کی ہیں۔