چترال: (دنیا نیوز) دنیا کی سب سے خطرناک چوٹی کے ٹو پر فضائی سرچ آپریش تیسرے روز بھی جاری رہا لیکن علی سدپارہ اور دیگر لاپتا کوہ پیماؤں کا سراغ نہیں مل سکا۔
ریسکیو ذرائع کے مطابق آج بھی ہیلی کاپٹرز نے 7000 میٹر سے بلندی پر سرچ آپریشن کیا۔ موسم موافق ہوا تو جہاز کے ذریعے انتہائی بلندی پر سرچ آپریشن زیرِ غور ہے۔ تاہم موسمی حالات کے باعث زمینی راستے سے ریسکیو معطل ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز ہیلی کاپٹرز نے 7800 میٹر بلندی تک پرواز کی تھی۔ ریسکیو ٹیم نے پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ اور ٹیم کو ڈھوںڈنے کی بھرپور کوشش کی لیکن ناکام رہی۔
فضائی سرچ آپریشن میں نامور نیپالی شرپا چنگ دوا اور ساجد سدپارہ نے حصہ لیا۔ سرچ آپریشن کے بعد ساجد سدپارہ کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے سکردو پہنچا دیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ لاپتا پاکستانی کوہ پیما علی سدپارہ اور دو غیر ملکی کوہ پیما سردیوں میں بغیر آکسیجن کے ٹو کو سر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ محمد علی سد پارہ نے 2016ء میں سردیوں کی مہم جوئی کے دوران پہلی بار نانگا پربت کو سر کیا تھا۔
انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے آٹھ ہزار میٹر کی آٹھ چوٹیاں فتح کرنے کے علاوہ ایک سال کے دوران آٹھ ہزار میٹر کی چار چوٹیاں سر کی ہیں۔
کے ٹو کو سردیوں میں فتح کرنے کی مہم، نامور پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے جان پابلو انتہائی بلندی پر پہنچنے کےبعد واپس نہیں پہنچ سکے ہیں۔
لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش، دوسرے روز بھی کوئی سراغ نہ مل سکا
علی سدپارہ سمیت دیگر کوہ پیماؤں کا جمعہ سے کیمپ سے رابطہ منقطع ہے۔ ہیلی کاپٹر کے ذریعے کوہ پیما ٹیم کی تلاش کی گئی لیکن خراب موسم اور تیز ہواؤں کے باعث ریسکیو آپریشن کامیاب نہ ہو سکا۔
مہم جوئی میں علی سدپارہ کے ساتھ ان کے بیٹے ساجد سد پارہ بھی موجود تھے جو آکسیجن ریگولیٹر خراب ہونے پر بحفاظت کیمپ ون میں پہنچ گئے تھے۔
کوہ پیما علی سدرپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ کو یقین ہے کہ ان کے والد نے "کے ٹو " کی چوٹی سر کر لی تھی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں واپسی پر کوئی حادثہ پیش آیا ہوگا۔
ساجد سدپارہ کا کہنا تھا کہ آخری بار والد کو بوٹل نیک پر چڑھتے دیکھا تھا۔ سکردو میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ساجد سدپارہ نے کہا کہ کوہ پیماؤں کے زندہ بچنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ ساجد سدپارہ نے بھرپور کوششوں پر حکومت پاکستان، پاک فوج اور دعاؤں پر قوم کا شکریہ ادا کیا۔