لاہور: (دنیا میگزین) پاکستان میں کووڈ 19 نے جہاں تعلیم، صحت، معیشت اور دیگر شعبوں میں نظام زندگی کو بری طرح متاثرکیا، وہیں کھیل کے میدانوں پر بھی اس دھند کے بادل چھائے رہے۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستانی تاریخ میں 2020ء کا سال کھیلوں کے لئے مایوس ترین رہا، کرکٹ کے سوا پاکستان کسی بھی اولمپک کھیل کے عالمی اوربین الاقوامی ایونٹ میں حصہ نہ لے سکا۔ اس سال جاپان میں ہونے والی ٹوکیو اولمپک گیمز کا التواء پاکستان سمیت دنیا بھر میں کھیلوں کے شائقین کے لئے سب سے بڑا دھچکاتھا، دنیائے کھیل کا سب سے بڑا بین الاقوامی ایونٹ 24جولائی سے 9اگست 2020ء کو منعقدہوناتھا جس میں پاکستانی اتھلیٹس نے بھی شرکت کرناتھی تاہم کورونا وائرس کے خطرات کے پیش نظر اس ایونٹ کوایک سال کیلئے ملتوی کردیاگیا اوراب اولمپک گیمز 23جولائی سے 8اگست 2021ء کوٹوکیو میں منعقدہوں گے۔ چھٹی ایشین بیچ گیمز 28نومبر سے 6دسمبر 2020ء چائنہ میں ہونی تھیں لیکن کورونا وائرس ان کھیلوں کوبھی شکارکرگیا ، اس ایونٹ میں پاکستان کی متعدد ٹیموں نے شرکت کرنی تھی لیکن ہمارے کھلاڑیوں کی ساری تیاریاں دھری کی دھری رہ گئیں، اب یہ ایونٹ اپریل 2021ء میں متوقع ہے۔
اسی طرح آئی سی سی کرکٹ ورلڈکپ 2020ء آسٹریلیا بھی کووڈ 19کا شکار ہوگیا جس سے شائقین کو سخت مایوسی کاسامنا کرنا پڑا۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان سپورٹس کاجائزہ لیاجائے تو کورونا وائرس کی وباء کے باوجود ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی اور پاکستان سپرلیگ کامکمل ایڈیشن اپنے ملک میں منعقد ہونا ہی قومی کھیلوں کے حوالے سے ایک اچھی خبر ہے۔ کورونا وائرس نے پاکستان سپرلیگ کابھی پیچھا نہیں چھوڑا لیکن اس کے باوجود یہ لیگ کامیابی سے مکمل ہوئی۔ 20فروری 2020ء کو شروع ہونے والی پی ایس ایل کے 15مارچ تک لاہور، کراچی ، راولپنڈی اورملتان میں 30میچز ہوئے تھے کہ کووڈ 19کی تباہ کاریوں سے ملکی وغیرملکی کھلاڑیوں کوبچانے کے لئے بریک لگادی گئی اور پھر عالمی وباء کی پہلی لہر ختم ہونے پر 14تا 17نومبر فائنل سمیت لیگ کے بقیہ 4میچز منعقد ہوئے ۔علاوہ ازیں جنوری 2020ء میں بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم نے پاکستان کادورہ کیا، لاہور میں 3ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز اور راولپنڈی میں ایک ٹیسٹ میچ کھیلا گیااس دورے میں گرین شرٹس نے مہمان ٹیم کو شکست دے دوچارکیا جبکہ اس سیریز کا کراچی ٹیسٹ میچ تاحال زیرالتواء ہے۔
جنوری میں ہی پاکستانی شاہینوں نے جنوبی افریقہ میں انڈر19کرکٹ ورلڈکپ میں حصہ لیا۔ فروری 2020ء میں ایم سی سی کی ٹیم نے پاکستان کادورہ کیا اوریہاں 3ٹی ٹوئنٹی اورایک ون ڈے میچ کھیلا۔پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم نے فروری میں ہی آسٹریلیا میں منعقد ہونے والے خواتین کے عالمی کرکٹ کپ میں شرکت کی۔ اگست 2020ء میں قومی کرکٹ ٹیم نے انگلینڈ کادورہ کیا، اس دورے میں 3ٹیسٹ اور3ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے گئے، ٹیسٹ سیریز میں پاکستان کو ایک صفر سے شکست کاسامنا کرناپڑا تاہم مختصر فارمیٹ کی سیریز ایک، ایک سے برابررہی۔اکتوبر میں زمبابوے کرکٹ ٹیم نے پاکستان کادورہ کیا، اس دورے کے میچز راولپنڈی ، ملتان اورلاہور میں شیڈول تھے تاہم بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر تمام میچز پنڈی کرکٹ سٹیڈیم راولپنڈی میں ہی منتقل کردئیے گئے، شاہینوں نے ایک روزہ انٹرنیشنل میچز میں مہمان ٹیم کو دو، ایک جبکہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل سیریز میں تین صفر سے شکست دی۔ آج کل پاکستان کرکٹ ٹیم نیوزی لینڈ کے دورے پر ہے لیکن کورونا وائرس کے خطرات اور دیار غیر میں طویل قرنطینہ کے بعد گرین شرٹس کی کارکردگی متاثر ہوئی، ٹیم کو سب سے بڑادھچکا کپتان بابراعظم کی انجری سے ہوا جس کے باعث وہ ٹی ٹوئنٹی سیریز سے باہرہوگئے۔اب نئے سال میں جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم 14 سال بعد پاکستان کا دورہ کرے گی،دوطرفہ سیریز میں شامل2 ٹیسٹ میچوں کی میزبانی کراچی اور راولپنڈی کے سپرد کی گئی ہے،تین ٹی ٹونٹی میچز لاہور میں کھیلے جائیں گے، سیریز میں شامل دونوں ٹیسٹ میچز آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپین شپ کا حصہ ہوں گے۔مہمان ٹیم سیریز میں شرکت کی غرض سے 16 جنوری کو کراچی پہنچے گی۔ سیریز کا پہلا ٹیسٹ میچ 26 سے 30 جنوری تک نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کھیلا جائے گا، جس کے بعد جنوبی افریقہ کی ٹیم راولپنڈی پہنچے گی جہاں وہ چار فروری سے شروع ہونے والے دوسرے ٹیسٹ میچ میں شرکت کرے گی۔سیریز کے تینوں ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل میچز قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کھیلے جائیں گے۔
یہ میچز 11، 13اور 14 فروری کو ہوں گے۔دورے میں شرکت کے لیے پاکستان پہنچنے والی جنوبی افریقہ کی ٹیم اپنی قرنطینہ کی مدت کراچی میں مکمل کرے گی، جس کے بعد انہیں ٹریننگ سیشنز اور انٹرا اسکواڈ پریکٹس میچوں میں شرکت کی اجازت ہوگی۔سال 2007 کے بعد یہ جنوبی افریقہ کرکٹ ٹیم کا پہلا دورہ پاکستان ہوگا۔دونوں ٹیموں نے 2010 اور 2013 میں پاکستان کی ہوم سیریز نیوٹرل وینیو یعنی متحدہ عرب امارات میں کھیلی تھیں۔سال 1995 کے بعد سے لے کر اب تک دونوں ٹیموں کے درمیان کل 11 ٹیسٹ سیریز کھیلی جا چکی ہیں، ان گیارہ میں سے سات میں جنوبی افریقہ جبکہ ایک میں پاکستان نے کامیابی حاصل کی۔
وزیراعظم عمران خان اقتدار میں آئے تو ان سے سب سے بڑی توقع ملک میں کھیلوں کی جدید ترین سہولتوں کی فراہمی اور نوجوان کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر کرنے کی تھی۔ وزیراعظم عمران خان کی حامی نوجوان نسل کی خواہش تھی کہ وزیراعظم کھیلوں سے متعلقہ وزارت اپنے پاس رکھیں اور سپورٹس کے شعبے میں ایسا انقلاب برپا کریں جس سے پاکستان کھیلوں کی دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکے، لیکن شاید بطور وزیراعظم عمران خان کی ترجیحات کچھ اور ہیں، اسی لیے حکومت سنبھالنے کے بعد کھیلوں کا شعبہ ان کی ترجیحات میں نمایاں مقام نہیں پا سکا۔ وفاقی سطح پر کھیلوں کانظم و نسق سنبھالنے والی وفاقی وزارتِ بین الصوبائی رابطہ کا قلمدان ایک اتحادی جماعت کو کوٹے میں دے دیا گیا اور یوں یہ قرعہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے نام نکلا جن کا شاید ہی کبھی سپورٹس سے واسطہ رہا ہو۔ بدقسمتی نوجوان کھلاڑیوں کی یہ کہ فروری 2018 میں ڈائریکٹر جنرل پاکستان سپورٹس بورڈ ڈاکٹر اختر نوازگنجیرا اپنی مدتِ ملازمت مکمل ہونے پر ریٹائر ہو چکے تھے اوراس بات کا انتظارتھا کہ نئی حکومت برسر اقتدار آنے کے بعد ملک میں کھیلوں کا نظام چلانے والے سب سے بڑے ادارے پی ایس بی میں ڈی جی کی تعیناتی عمل میں لائے۔ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے وزارت کا قلمدان سنبھالا تو انہیں بتایا گیا کہ سب سے اہم اور اولین ترجیح ملک میں کھیلوں کے سب سے بڑے ادارے میں سربراہ کی تعیناتی ہے کیونکہ اس کے بغیر نظام ٹھپ ہو چکا ہے اور کھیلوں کے معاملات تباہی سے دوچار ہو رہے ہیں کیونکہ وزارت کے جن افسران کو ڈھائی تین ماہ کیلئے ڈی جی پی ایس بی کا اضافی چارج دیا جاتا ہے، وہ اس شعبے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے اور معاملات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔
ڈی جی کا عہدہ تین سال ہونے والے ہیں ابھی تک خالی پڑا ہے اور کوئی بھی تاحال پاکستان سپورٹس بورڈ کا سربراہ تعینات نہیں ہو سکا۔ تقریبا ایک سال قبل یہ مشق ضرور دیکھنے کو ملی کہ پاکستان تائیکوانڈو فیڈریشن کے صدر کرنل(ر) وسیم جنجوعہ کی بطور ڈی جی پی ایس بی تعیناتی کی خبریں گردش میں آئیں جس کا پورے ملک میں کھیلوں کے ماہرین، شائقین اور قومی فیڈریشنوں کی جانب سے خیر مقدم کیا گیا لیکن پھر یہ معاملہ بھی سرد خانے کی نذر ہو گیا اور آج تک کسی کی بھی تقرری نہیں ہو سکی۔ابق ڈی جی کی ریٹائرمنٹ کے بعد تقریبا دو سال تک وزارت کی جانب سے جوائنٹ سیکرٹری کی سطح کے کسی افسر کو تین ماہ کیلئے پی ایس بی کے سربراہ کا اضافی چارج دیا جاتا رہا جو افسر بھی اس سیٹ پر آتا، اسے یہ معلوم ہوتا تھا کہ اس کے پاس صرف اڑھائی ماہ ہیں لہٰذا اس قلیل عرصہ میں اس نے بیرونِ ملک ٹور بھی کرنا ہوتا اور باقی معاملات بھی سیدھے کرنا ہوتے، اسی لیے یہ سیٹ نہایت پرکشش سمجھی جانے لگی لیکن جب یہ شکایات سامنے آئیں تو اس پر الٹا اثر ہوا اور ادارے میں مستقل سربراہ کی تعیناتی کے بجائے کسی افسر کو ڈی جی کا اضافی چارج دینے کا سلسلہ بھی بند کر دیا گیا۔
یوں سپورٹس بورڈ کے تمام معاملات وفاقی وزارت کو منتقل ہو گئے،تقریبا ایک سال سے پاکستان سپورٹس کمپلیکس میں کھیلوں کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں اور کھیلوں کا انفراسٹرکچر دیگر سرگرمیوں کے لیے استعمال ہو رہا ہے جو اس ملک کی نوجوان نسل کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی ہے۔ بورڈ کے سینئر آفیشلز کا کہنا ہے کہ تمام اختیارات وفاقی وزارت کے پاس ہیں لہٰذاچھوٹے چھوٹے کام بھی وفاقی وزیر یا سیکرٹری کی منظوری کے بغیر نہیں ہوسکتے، وزارت کی دیگر مصروفیات کے باعث تقریبا تمام معاملات ٹھپ ہو چکے ہیں، کھیلوں کی سرگرمیاں پوری طرح معطل ہیں اور انفراسٹرکچر تباہ ہو رہا ہے۔ پاکستان سپورٹس بورڈ کے مستقل سربراہ کی عدم تعیناتی سے ملک کی نوجوان نسل بھی سخت مایوسی کا شکار ہے اور ہمارے کھلاڑیوں کی ٹریننگ و پریکٹس کا عمل بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
کووڈ19کی تباہ کاریوں کے باوجود ایک خوش خبری یہ بھی ملی کہ پاکستان فیڈریشن بیس بال نے تاریخ رقم کردی ،دنیا کے بلند ترین مقام سکردو اورگلگت پر نمائشی بیس بال میچ کا انعقاد کرکے ورلڈ ریکارڈ قائم کردیا۔ فیڈریشن نے دنیا کے بلند ترین مقام سکردو اور گلگت پر پاکستان گرین اور پاکستان وائٹ کی ٹیموں کے درمیان بیس بال کے نمائشی میچز کا انعقاد کیا، اس میچ کے بعد سکردو میں واقع بیس بال گرائونڈ دنیا کا بلند ترین گرائونڈ بن گیا ہے ۔ سکردو کی اونچائی سطح سمندر سے 7310 فٹ ہے ۔ اس طرح پاکستان فیڈریشن بیس بال نے دنیا کے بلند ترین بیس بال گرائونڈ کا نیا ریکارڈ قائم کردیا۔ پاکستان فیڈریشن بیس بال کے صدر سید فخر علی شاہ کا کہنا ہے کہ ہم نے پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کیا اور دنیا کے بلند ترین بیس بال گرائونڈ کا ریکارڈ قائم کیا اور مجھے خوشی ہے کہ ہم نے پاکستان فیڈریشن بیس بال کے سابق صدر سید خاور شاہ(مرحوم)کے مشن کو بہتر انداز میں مزید آگے بڑھایا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ نمائشی میچز کے انعقاد سے گلگت بلتستان میں بیس بال کی پروموشن اور ڈیویلپ منٹ میں مدد ملے گی ۔
نئے سال میں پاکستان نے14ویں سائوتھ ایشین گیمز 2021ء کی میزبانی کرنی ہے،ان بین الاقوامی کھیلوں میں صرف چند ماہ کاعرصہ باقی رہ گیاہے لیکن 2020ء میں حکومت کی جانب سے سائوتھ ایشین گیمز کے انعقاد کے لئے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کو این اوسی ہی جاری نہیں کیاگیا جس کے باعث نہ تو ابھی تک ان کھیلوں کی تیاریوں کاآغاز ہوسکا ہے اورنہ ہی رکن ممالک کے این اوسی کو ٹیموں کی رجسٹریشن اورانٹری کے لئے دعوت نامے جاری کئے جاسکے ہیں، آخر کار کورونا وائرس کوجواز بنا کر پاکستان میں بین الاقوامی کھیلوں کی بحالی کا سنہری موقع ضائع کرنا پڑے گا ۔ یہ ملٹی سپورٹس بین القوامی ایونٹ پہلے سیف گیمز کے نام سے مشہورتھا،اس سے قبل پاکستان 1989 میں چوتھی سیف گیمز اسلام آباد کی میزبانی کرچکاہے، پھر 2004 میں ان کھیلوں کانام سائوتھ ایشین گیمز رکھ دیاگیااورنویں سائوتھ ایشین گیمز کی میزبانی بھی اسلام آباد کے حصے میں آئی ۔ان کھیلوں کی تیاری کے حوالے سے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر لیفٹیننٹ جنرل(ر)سیدعارف حسن نے مایوسی کااظہار کرتے ہوئے بتایاہے کہ ابھی تک حکومت کی جانب سے این اوسی نہیں ملا جس کی وجہ سے رکن ممالک کو دعوت ہی نہیں دی جاسکی حالانکہ 2004 میں ہونے والی کھیلوں کی تیاریوں میں تین سال لگے تھے اوراب صرف چند ماہ رہ گئے ہیں اگر ہم نے یہ موقع ضائع کردیا تو یہ پاکستان کیلئے سخت نقصان دہ ہوگا۔
کشمیر پریمیئر لیگ کااعلان خوش آئندہے اس سے نہ صرف ریاست کے نوجوانوں کو اچھی کرکٹ کھیلنے ودیکھنے کوملے گی بلکہ عالمی سطح پر کشمیر کا ایک اچھا تاثر بھی ابھرے گا۔ کے پی ایل کا آغاز یکم اپریل 2021 کو مظفر آباد کرکٹ سٹیڈیم میں ہوگا جس میں چھ ٹیمیں شرکت کرینگی،ان ٹیموں میں مظفر آباد ٹائیگرز،میرپوررائلز،کوٹلی پینتھرز،راولاکوٹ ہاکس،باغ سٹالیئنز اور اوورسیز واریئرز شامل ہیں۔قومی کرکٹر شاہد خان آفریدی کشمیر پریمیئر لیگ کے برانڈ ایمیسڈر جبکہ اظہر محمود ہیڈ کوچ ہو نگے۔آزاد کشمیر کے صدر مسعود خان نے کہا کہ پاکستان کشمیر کے بغیر اور کشمیرپاکستان کے بغیرنا مکمل ہے،کشمیری پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور کرکٹ سے بھی محبت کرتے ہیں۔بھارت کے خلاف میچ میں کشمیری پاکستان کی کامیابی کیلئے دعاگو ہوتے ہیں۔یہ لیگ پی سی بی اور آئی سی سی سے منظور شدہ ہے جبکہ’’ کھیلو آزادی سے‘‘ کا نعرہ آزادی کا نشان ہے۔