نیویارک: (دنیا نیوز) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نائن الیون کے بعد پاکستان نے امریکا کی جنگ میں شامل ہو کر غلطی کی تھی۔ امریکا کو افغانستان میں امن کے لیے اپنی فوج نکالنا ہوگی۔ میں صدر ٹرمپ کو افغان طالبان سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر زور دونگا۔
وزیراعظم عمران خان کا نیویارک میں فارن ریلیشنز کونسل میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کھیل میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے، کھیل آپ کو زندگی کا اہم سبق سکھاتے ہیں۔ میں بائیس سال کی جدوجہد کے بعد اس مقام پر پہنچا ہوں۔
چین مشکل وقت میں ہماری مدد کو نہ آتا تو ہم ڈیفالٹ کر جاتے
پاکستان کی معاشی صورتحال پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ماضی کی حکومتیں ملکی معیشت کو درست سمت پر گامزن کرنے میں ناکام رہیں۔ اقتدار میں آئے تو ملک کی معاشی صورتحال بہت ابتر تھی۔ ماضی کی حکومتیں پاکستان میں خسارہ چھوڑ کر گئیں۔ گھروں کو چلانے کیلئے اخراجات کم اور آمدن بڑھانا پڑتی ہے لیکن ماضی میں اخراجات کے مقابلے میں آمدن کو نہ بڑھایا جا سکا۔ ان کی ناکامی کی وجہ سے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس جانا پڑا۔ چین، سعودی عرب اور یو اے ای نے معاشی حالات بہتر کرنے میں مدد کی۔ اگر چین مشکل وقت میں ہماری مدد کو نہ آتا تو ہم ڈیفالٹ کر جاتے۔
پاکستان نے امریکا کی جنگ میں شامل ہو کر غلطی کی
پاک امریکا تعلقات اور افغانستان کی صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں پاکستان نے روس کیخلاف امریکا کیساتھ مل کر مزاحمت کی۔ روسی جنگ میں مجاہدین کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا لیکن روس کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد امریکا نے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا۔ نائن الیون کے بعد امریکا کو پھر پاکستان کی ضرورت پڑی اور ہمیں جہادیوں کیخلاف جنگ کرنے کا کہا گیا۔ نائن الیون کے بعد پاکستان نے امریکا کی جنگ میں شامل ہو کر غلطی کی۔ امریکا کو افغانستان میں امن کے لیے اپنی فوج نکالنا ہوگی۔ میں صدر ٹرمپ کو افغان طالبان سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر زور دونگا۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کا 200 ارب کا نقصان ہوا اور 70 ہزار سے زائد پاکستانیوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔
افغانستان میں کبھی بیرونی طاقت قبضہ نہیں کر سکتی
وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ میں وہ واحد شخص ہوں جس کا موقف رہا کہ افغان مسئلے کا فوجی حل نہیں ہے۔ میں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی ملاقات میں یہی بتایا کہ افغانستان کا فوجی حل ممکن نہیں، میں افغان تاریخ سے واقف ہوں، افغانستان میں کبھی بیرونی طاقت قبضہ نہیں کر سکتی۔ امریکا کو بھی پتا چل گیا ہے کہ وہ افغان جنگ نہیں جیت سکتا۔
طالبان پورے افغانستان پر کنٹرول نہیں رکھ پائینگے
انہوں نے تسلیم کیا کہ افغانستان میں سیاسی مذاکرات کی کامیابی بہت ہی مشکل مرحلہ ہے۔ میرے خیال میں طالبان پورے افغانستان پر کنٹرول نہیں رکھ پائینگے۔ افغانستان میں پائیدار امن سیاسی مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔ افغانستان میں امن معاہدے پر دستخط ہونے والے تھے لیکن بدقسمتی سے لمحات میں طے نہ پا سکا۔
پاکستان افغان سرحد مکمل بند نہیں کر سکتا
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاک افغان سرحد پر پہلی بار باڑ لگائی جا رہی ہے۔ پاکستان افغان مہاجرین کی وجہ سے اپنی سرحد مکمل بند نہیں کر سکتا۔
عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں نافذ کرفیو کو ہٹانے کیلئے کردار ادا کرے
مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ بھارت کشمیر میں عالمی قوانین کی مسلسل خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ وہاں گزشتہ 50 روز سے کرفیو نافذ ہے۔ عالمی برادری کو آگے بڑھتے ہوئے کشمیر میں نافذ کرفیو کو ہٹانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ دو ایٹمی ملکوں میں اگر جنگ ہو گئی تو کچھ بھی ہو سکتا ہے، اس اہم معاملے پر اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ بھارت نے 80 لاکھ کشمیریوں کو گھروں میں نظر بند کر رکھا ہے۔
مودی حکومت آر ایس ایس کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے
مختلف سوالوں کے جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ جمہوری حکومتیں اخلاقی جواز کی بنیاد پر ہی قائم ہوتی ہیں لیکن مودی حکومت آر ایس ایس کے ایجنڈے کو فالو کر رہی ہے۔ انڈین حکومت نے پاکستان دشمنی انتخابی مہم میں جیت کے لیے استعمال کی۔ انتخابات کے بعد ہم نے ایک بار پھر مودی کو مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کی پیشکش کی، تاہم بھارت نے بغیر تحقیقات کے پلواما واقعے کا الزام پاکستان پر لگا دیا۔
اسلام دو نہیں ایک، ہم محمد ﷺ کے اسلام کو مانتے ہیں
ایک اہم سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام دو نہیں ایک ہے۔ جو اسلام ہم مانتے ہیں وہ محمد ﷺ کا ہے، انتہا پسند یا معتدل اسلام جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ اسلام میں اقلیتوں اور خواتین کے حقوق موجود ہیں لیکن عملدرآمد کمزور ہے۔ اسلام نے اقلیتوں کو برابر کے حقوق دیے ہیں۔ بد قسمتی سے ہم مدینہ کی ریاست سے دور چلے گئے۔ مدینہ کی ریاست میری آئیڈیل ریاست ہے۔