لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان کشمیر مشن پر نیویارک میں موجود ہیں، ان کی دورہ امریکا کے دوران صدر ٹرمپ سمیت عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی ہونی ہیں، جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم کے خطاب کو کشمیر کے حوالے سے پیدا شدہ صورتحال انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے جس میں وہ دنیا کو کشمیر جیسے سلگتے مسئلے سے آگاہ کرتے ہوئے یہ باور کرائیں گے کہ اگر اس حوالے سے عالمی قوتوں اور اداروں نے اپنا مؤثر کردار ادا نہ کیا تو دو نیوکلیئر پاورز کے درمیان تناؤ اور محاذ آرائی کی کیفیت کوئی بھی صورت اختیار کر سکتی ہے جس کے عالمی امن پر بھی اثرات ہوں گے، اس لئے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وزیراعظم کا دورہ امریکا خصوصاً مشن کشمیر کس حد تک کامیاب ہوگا۔
کیا عالمی قوتیں اور ادارے کشمیر کاز، خصوصاً انسانی حقوق کی بدترین صورتحال پر کوئی کردار ادا کر سکیں گے ؟ اور بھارت کی جانب سے 5 اگست کو مقبوضہ وادی پر غاصبانہ قبضہ کیلئے کئے جانے والے اقدامات اور عالمی رہنماؤں سے ملاقاتوں کے عمل کے سوال سے تو اس میں بڑے بریک تھرو کا تو کوئی امکان نہیں ؟ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان عالمی برادری کو ضرور باور کرا دیں گے کہ بھارت کی جانب سے 5 اگست کے اقدام اور اس کے نتیجہ میں پیدا شدہ صورتحال پر بھارت کا ہاتھ نہ پکڑا گیا اور مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں اور سفاک کرفیو کا عمل جاری رہا تو اس کے نتیجہ میں کوئی بھی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے اور اس کا ذمہ دار بھارت ہوگا۔
جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ کیا صدر ٹرمپ اور امریکا بہادر مسئلہ کے حل اور مقبوضہ وادی میں پیدا شدہ صورتحال پر کوئی کردار ادا کرے گا تو اس کا جواب تو امریکی صدر ٹرمپ نریندر مودی کی ریلی میں شرکت اور بھارت سرکار کے ساتھ وزن ڈالنا انسانی حوالے سے درست اقدام ہے کیونکہ امریکا کے حوالے سے ہمیشہ یہ رائے رہی ہے کہ امریکا انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی ایک پہچان رکھتا ہے اور یہاں بھی انسانی حقوق بارے کوئی شکایات پیدا ہوتی ہیں تو امریکا اس کا نوٹس لیتا ہے لیکن اب جبکہ دنیا کو خوب معلوم ہو چکا ہے کہ مقبوضہ وادی میں بھارت نے کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے اور مسلسل کرفیو کے عمل کے باعث یہاں انسانی صورتحال طاری ہے اس کیفیت میں بھارت سرکار کی سرکوبی اور اس پر دباؤبڑھانے کے بجائے ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا عمل خود امریکی کردار کے آگے بہت سے سوالات کھڑے کرتا ہے ایک جانب امریکی صدر کشمیر پر ثالثی کے خواہاں ہیں تو دوسری جانب وہ اپنا وزن بھارت کے ساتھ ڈال کر پاکستان کو پیغام دے چکے ہیں کہ ان سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جانی چاہئے لیکن انہیں یہ مت بھولنا چاہئے کہ اس طرح سے کشمیر کا مسئلہ دبنے والا نہیں کیونکہ اگر حکومتیں مصلحت کا شکار ہو کر بھارت پر اثر انداز نہیں ہونا چاہتیں تو دنیا کی رائے عامہ میں یہ تحریک پیدا ہو رہی ہے کہ بھارت کشمیر پر غاصبانہ قبضہ قائم کر کے کشمیریوں کی آواز کو بزور طاقت دبانا چاہتا ہے اور کشمیر بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا شکار ہے۔
دنیا بھر میں پہلے ہی کشمیری نریندر مودی کا تعاقب کرتے نظر آتے ہیں، کشمیر جس پر قبضہ کے جس خواب کو نریندر مودی نے حقیقت بنانے کیلئے فوج گردی کی وہ اب اسے ڈراتا نظر آتا ہے۔ سفارتی محاذ پر بھارت کو ایک بڑا ملک ہونے کے باوجود پے در پے شکست کا سامنا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دنیا کو یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ ایک طرف بھارت کشمیر کو جیل بنائے ہوئے ہے تو دوسری طرف وہ خود کو معصوم اور مظلوم ظاہر کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو اس وقت فوجی طاقت کے ذریعہ دنیا سے کاٹ دیا گیا ہے بلکہ مقبوضہ وادی کے اندر بھی گلی محلے اور بازاروں کا آپس میں رابطہ نہیں رہا۔ ایسا سب کچھ کیوں ہے ؟ کشمیریوں کو فاقہ کشی کا شکار بنا کر اور ان کے مریضوں کو ادویات کی فراہمی کا عمل معطل کر کے کیا پیغام دیا جا رہا ہے۔ ایسا سب کچھ کیوں ہے، بھارت دنیا کو یہ بتانے سے قاصر ہے اور پھر یہ خبریں آئیں کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر میں کشمیر کی صورتحال کا ذکر نہیں کریں گے خود بھارت کی جانب سے یہ اعلان اور اقدام ظاہر کر رہا ہے کہ کشمیر نریندر مودی سرکار کا سب سے بڑا کمزور پہلو ہے جس پر وہ اظہار خیال نہیں کرنا چاہتے، لیکن حقیقت یہ ہوگی کہ نریندر مودی کا دورہ امریکا میں کشمیر کی بدترین صورتحال ان کے چہرے پر نمایاں ہوگی وہ کشمیر کا ذکر نہیں کریں گے ، مگر دنیا تو کشمیر کی دہائی دے گی اور پوچھے گی کہ بڑی جمہوریت کا دعویدار بھارت آخر کیونکر مظلوم اور نہتے کشمیریوں کے خلاف طاقت کا استعمال کر رہا ہے۔