لاہور: (روزنامہ دنیا) مملکت کا تیل پر انحصار کم کرنے کیلئے اصلاحات متعارف کروائیں۔ پلان 2030ء بنایا۔ ملک بھر میں شاہی خاندان کیخلاف کرپشن مخالف مہم چلائی، 100ارب ڈالر نکلوائے۔ سعودی عورتوں کو ڈرائیونگ کی اجازت دی، انہیں بغیر مرد کفیل کاروبار کا موقع دیا۔ 35 برس بعد ملک کے سینما ہال کھولے، انٹرٹینمنٹ سٹی بنانے کا بھی منصوبہ تیار کیا۔
33 سالہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان جدید سعودی عرب کے ابھرتے ہوئے معمار ہیں۔ وہ سعودی خواتین کے حقوق کے علمبردار ہیں۔ انہوں نے خواتین کو ڈرائیونگ اور بغیر مرد کفیل کے کاروبار کرنے کی اجازت دی۔
مملکت کا تیل پر انحصار کم کرنے کیلئے پلان 2030ء بنایا۔ 2018ء میں ملک بھر میں اور شاہی خاندان کے متعدد افراد کیخلاف کرپشن مخالف مہم چلائی اور 100 ارب ڈالرنکلوائے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان 31 اگست 1985ء کو پیدا ہوئے۔ وہ موجودہ بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود کی تیسری اہلیہ فہدہ بن فلاح کے سب سے بڑے صاحبزادے ہیں۔
ریاض کی کنگ سعود یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ وہ اپنے والد کیلئے کئی طرح کے مشیروں کے کردار ادا کر چکے ہیں۔ ان کی ایک بیوی ہے جن سے ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔
انھیں 2009ء میں اپنے والد کا مشیرِ خصوصی مقرر کیا گیا جو اس وقت ریاض کے گورنر تھے۔ شہزادہ محمد کے سیاسی سفر میں ایک اہم موڑ اپریل 2015ء میں اس وقت آیا جب شاہ سلمان نے اپنی جانشینی کی قطار میں نئی نسل کو شامل کیا۔
ولی عہد کے پاس نائب وزیرِاعظم کے ساتھ ساتھ وزیر دفاع کا عہدہ بھی ہے۔ شہزادہ محمد 29 برس کی عمر میں دنیا کے سب سے نوعمر وزیر دفاع بنے تھے۔
جب سے ولی عہد محمد بن سلمان منظرِ عام پر آئے ہیں، اس وقت سے ہی سعودی عرب میں ایک ہلچل مچی ہوئی ہے۔ مئی 2017ء میں انہوں نے کرپشن کیخلاف بڑی مہم شروع کی جس کے دوران درجنوں شہزادوں، امرا اور سابق وزرا کو گرفتار کروایا۔
اس مہم کے ذریعے انہوں نے کرپٹ افراد سے اربوں ڈالر نکلوائے۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے ملک میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے کئی اہم اقدامات اٹھائے۔
انھوں نے عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت دی، بغیر مرد کفیل کے کاروبار شروع کرنے کا موقع دیا۔ ان کے ہی دور میں ایک خاتون سعودی عرب کی سٹاک ایکسچینج کی سربراہ بنی۔
اپریل 2018ء میں 35 برس بعد سعودی عرب کے سینما میں دوبارہ فلم دکھائی گئی۔ سعوی عرب میں پہلے انٹرٹینمنٹ سٹی کا منصوبہ بھی بنایا گیا۔