کشمیریوں کی عظیم جدوجہد کے 30 سال

Last Updated On 01 August,2018 09:43 am

لاہور: ( روزنامہ دنیا) تیس سال قبل کشمیر میں بھارتی تسلط کے خلاف تحریک کا آغاز ایک دیسی ساختہ بم سے ہوا، آج کے جنگجوؤں کی نئی پود مسلح سرگرمیوں کے علاوہ سوشل میڈیا کے ذریعے حملے کرکے لڑائی کو تلخی کی نئی بلندیوں تک لے جا رہے ہیں۔

31 جولائی 1988 کو سری نگر کے ٹیلی گراف آفس کے دروازے پر دھماکہ ہوا جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا اور یہ کشمیر میں تحریک آزادی کا نقطہ آغاز ثابت ہوا، تب سے جاری جدو جہد میں اب تک 70 ہزار جانیں جا چکی ہیں۔ اس دھماکے کی عوامی حمایت حملہ آوروں اور بھارتی حکومت دونوں کیلئے حیران کن تھی۔ کشمیر تب سے ایسا خطہ ہے جہاں دنیا میں سب سے زیادہ فوج تعینات ہے۔ پانچ لاکھ سے زائد بھارتی فوج کے خلاف سرگرم جنگجو آج سوشل میڈیا کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ سینکڑوں نوجوان زیر زمین گروپوں میں شمولیت کے بعد فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا سائٹس پر کلاشنکوف کیساتھ اپنی تصاویر پوسٹ کرتے ہیں، جس کا مقصد عوامی ہمدردیاں سمیٹنے کے علاوہ نئی بھرتیاں حاصل کرنا ہے۔ اکثر بھارتی فوج کو حریت پسندوں کیلئے سڑکوں پر آنیوالے شہریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو گولیوں کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ بھارتی پولیس اس صورتحال کے توڑ کیلئے مظاہروں کے دوران موبائل انٹر نیٹ سروس بلاک کردیتی ہے۔

گزشتہ سال سوشل میڈیا سائٹس پورا مہینہ بند رہی تھیں۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے مطابق 50 سالہ عبدالاحد نے پاکستانی کشمیر سے تربیت حاصل کرنے کیلئے خفیہ طور پر پہلا گروپ منظم کیا، جس نے پہلی مرتبہ بم نصب کئے، تاہم وہ بڑے پیمانے پر عوامی حمایت کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ وہ صرف دنیا کو باور کرانا چاہتے تھے کہ کشمیر پر بھارتی تسلط قابل قبول نہیں۔ عبدالاحد 11 سال قید کی سزا کاٹ چکے ہیں، رہائی کے بعد سے بیوی اور 2 بچوں کیساتھ گوشہ نشینی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ عبدالاحد کے مطابق سری نگر کا دھماکہ ہمارے مقصد کیلئے عوامی حمایت کے ایک وسیع دھماکے میں تبدیل ہو گیا تھا، آج عسکریت پسندوں کی نئی نسل لڑائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پی ایچ ڈی سکالر منان وانی نے ایک بھارتی یونیورسٹی سے جیالوجی پر ریسرچ چھوڑ کر کالعدم حزب المجاہدین میں شمولیت اختیا ر کر لی تھی۔

کشمیر میڈیا کے نام ایک حالیہ خط میں انہوں نے لکھا ’’ایک وقت تھا جب مسلح گروپ اور ہزاروں بھارتی فوجیوں کے درمیان لڑائی تھی، مگر آج بھارتی فوج کو جنگجوؤں تک پہنچنے کیلئے ہزاروں غیر مسلح اور آزاد جنگجوؤں کے درمیان سے گزرنا پڑتا ہے۔ جنگجوؤں کو بچانے کیلئے اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر لڑائی کے مقام پر پہنچنے والے غیر مسلح افراد کے ذریعے ہمیں لوگوں کے جذبات اور آرزوؤں کا تصور ملتا ہے‘‘۔ 1988 کے بم دھماکے کے بعد سے کشمیر میں مظاہروں کا سلسلہ تسلسل کیساتھ چل رہا ہے، بھارتی فوج کے کریک ڈاؤن میں ہزاروں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں جنگجو اور عام شہری دونوں شامل ہیں۔ علیحدگی پسند آزادی یا پاکستان میں انضمام چاہتے ہیں۔

جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ نے 1994 میں مسلح جدوجہد ختم کر دی تھی، ان کی جگہ دیگر مسلح گروپوں کے ہزاروں جنگجوؤں نے لے لی۔ قیام امن کی بھارتی کوششیں اور 2001 میں کشمیر پر پاک بھارت سربراہی اجلاس نتائج دینے میں ناکام رہے ۔ کشمیریوں کے 2008 سے 2010 کے دوران حق خود ارادیت کیلئے پرامن مظاہروں میں لاکھوں افراد شریک ہوئے ۔ سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہروں سے نمٹنے کیلئے کارروائیوں نے مزید 300 سے زائد شہریوں کی جان لے لی۔اس دوران لگا کہ مزاحمت کمزور پڑرہی ہے ، مگر جولائی 2016 میں بھارتی فوج نے معروف کمانڈر برہان وانی کو شہید کر دیا، جس کے سوشل میڈیا پر کثیر تعداد میں پرستار تھے ۔اس شہادت سے مزاحمت کی نئی لہر اٹھی۔ آج جنگجوؤں کے ٹھکانوں کے گھیراؤ کے دوران بھارتی فوج کو پورے علاقے کی آبادی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، جوکہ مجاہدین کی مدد کیلئے فوجیوں پر پتھر پھینک رہے ہوتے ہیں۔

کشمیر میں 20 سال سے زائد تعینات رہنے والے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہوڈا کے مطابق بھارتی حکومت کیلئے حقیقی چیلنج کشمیری عوام کا غم و غصہ ہے ۔ عسکریت پسندی بڑا مسئلہ نہیں، شہری ہلاکتوں کے بعد کشمکش سے مسئلہ سنگین تر ہو رہا ہے ،سوشل میڈیا جسے مزید ہوا دے رہا ہے ۔وانی کی شہادت کے بعد کئی ماہ مظاہرے ہوئے جس میں 100 سے زائد افراد جاں بحق، کم از کم دس ہزار زخمی ہوئے ۔ 2016 کے بعد وادی میں 500 کے لگ بھگ جنگجو شہید کئے گئے ۔کئی سال سے کشمیر آپریشن میں شریک ایک سینئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ماضی کی نسبت بھارت کو آج مشکل صورتحال کا سامنا ہے ۔ جنگجوؤں کو بچانے کیلئے شہریوں کا کثیر تعداد میں موقع پر پہنچنا ایک نئی پیش رفت ہے ، یہ سب کسی منصوبہ بندی کے بغیر از خود ہو رہا ہے ۔ گلیوں کا موڈ سخت تر ہوتا جا رہا ہے ۔ مقامی تاجر بشیر احمد نے کہا ، ’’لگتا ہے کہ حالات 90 کی دہائی سے بدتر ہو چکے ہیں۔ جوکچھ ہم نے دیکھا اور جوکچھ ہمارے ساتھ ہو چکا ہے ، اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچا‘‘۔