لاہور کا پاور شو ن لیگ کا سیاسی مستقبل طے کرے گا

Last Updated On 11 July,2018 10:57 am

لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ ن کی جانب سے اپنے لیڈر نواز شریف سے یکجہتی کے اظہار کیلئے جمعہ کے روز احتجاج اور استقبال سیاسی زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا ہے جس کیلئے ممکنہ افرادی قوت، مالی اور تنظیمی وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں ، مسلم لیگ ن کے صدر سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف لاہور کے داتا دربار سے بڑی عوامی ریلی کی قیادت کریں گے۔

ملک بھر سے اپنے ٹکٹ ہولڈرز اور تنظیمی عہدیداران کو لاہور میں احتجاج و استقبال کیلئے ٹاسک سونپ دئیے گئے ہیں۔ لہٰذا دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا مسلم لیگ ن اپنے طے شدہ پروگرام کے تحت احتجاج و استقبال کو اس سطح پر لے جائے گی کہ ان کے مقاصد بھی پورے ہوں اور فیصلہ کے بعد ان کے خلاف بننے والی فضا کا توڑ بھی کیا جا سکے اور سب سے بڑھ کر آنے والے انتخابات میں نواز شریف کے عدالتی فیصلہ میں ہونے والی جیل کی سزا کو ان انتخابات میں اپنی بھرپور کامیابی کیلئے استعمال کیا جا سکے۔ دوسری جانب یہ امر بھی اہم ہے کہ کیا مسلم لیگ ن کو عوامی طاقت کے مظاہرے کیلئے فری ہینڈ مل سکے گا ؟ نواز شریف اور مریم نواز کے بغیر مشکل صورتحال میں یہ بڑا امتحان ہے۔ کیا وہ اس میں سرخرو ہو سکیں گے ؟ اور اگر استقبال کو روکنے کیلئے ریاست نے طاقت کا استعمال کیا تو اس کے اثرات انتخابات اور آئندہ حالات پر کیا ہوں گے ؟ نواز شریف اپنی صاحبزادی کے ہمراہ آئندہ جمعہ کو لاہور ایئر پورٹ پر پہلی مرتبہ ملزم کے بجائے مجرم کے طور پر پاکستانی سر زمین پر قدم رکھیں گے۔ یہ وہ غیر متوقع صورتحال ہو گی جس کا ن لیگ نے بہت کم سامنا کیا ہے۔

لاہور کا پاور شو ن لیگ کا سیاسی مستقبل طے کرے گا۔ بہت حد تک ممکن ہے کہ پنجاب کی انتظامیہ اس احتجاج اور استقبالی مظاہرین کو طاقت سے روکنے کی کوشش کرے ۔مسلم لیگ نواز کے ورکروں پر نظر ڈالیں تو تاریخ میں ایک مرتبہ پہلے بھی نواز شریف پاکستانی اداروں کی منشا کے بغیر اسلام آباد اترے تھے مگر ہم نے دیکھا کہ اس وقت مسلم لیگ اپنی عوامی حمایت کو میدان میں اتارنے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ جب دوسری مرتبہ نواز شریف لاہور ایئر پورٹ پراترے تھے تو تب بھی لوگ حیران تھے کہ ن لیگ کی ’’جنم بھومی‘‘ لاہور میں نواز شریف کے شایان شان استقبال نہیں ہوا تھا۔ اس مرتبہ بھی وہی صورتحال در پیش ہے ۔ مایوس کن صورتحال اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ن لیگ کی بڑی لیڈر شپ نے اس احاطہ عدالت میں جانا بھی گوارا نہیں کیا جس میں نواز شریف ان کی صاحبزادی مریم نواز اور ان کے شوہر کو سزا سنائی گئی۔ ملک کے کسی بڑے شہر میں قدرتی رد عمل بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ جس سے ن لیگ کی اندرونی صورتحال اور سب سے بڑھ کر اس پارٹی میں تنظیم کے مسائل سامنے آئے ہیں۔

اس صورتحال میں پارٹی کے تمام طبقات کیلئے کھلا پیغام ہے کہ ملک کی سیاسی صورتحال میں بقا کا سوال ہے اور صورتحال اب یکسوئی اور مکمل یکجہتی کا تقاضا کر رہی ہے ۔ اگر پارٹی کے اندر گروپنگ جاری رہی اور ورکرز طاقت کے مختلف مراکز کی طرف دیکھتے رہے تو اس کے اثرات نواز شریف کے استقبال پر ہونگے اور اس صورتحال میں ریاست نے طاقت کا استعمال کیا اور پکڑ دھکڑ ہوئی تو ن لیگ انتخابات سے پہلے اس امتحان میں فیل ہو جائیگی۔ پکڑ دھکڑ کے انتہائی اثرات انتخابات پر ہونگے اور زیر حراست پارٹی ورکرز انتخابات تک شاید جیلوں میں سرکاری مہمان کے طور پر اندر رہیں گے۔ شہباز شریف کی اس وقت دلیری اور سیاسی بصیرت دونوں کا امتحان ہے، اب صورتحال ن لیگ کی قیادت اور ورکرز دونوں سے دلیرانہ جدوجہد کا تقاضا کر رہی ہے اگر اب بھی آئندہ انتخابات کو خرابی سے بچانے کیلئے ن لیگ نے طاقت کے آگے ہتھیار ڈال دئیے تو پھر انتخابات میں جیت کا امکان مزید کم ہوتا جائیگا اور اگر تمام تر خدشات ، خطرات اور تحفظات میں ن لیگ ایک بڑا اکٹھ کرنے میں کامیاب ہو گئی تو نا صرف انتخابات کی منزل آسان ہو جائیگی بلکہ عدالتی رویوں میں بھی نرمی لائی جاسکتی ہے ۔اس استقبالی مظاہرے میں لاہور کے باسی اور پنجاب بھر سے ن لیگ کے ورکرز باہر نکل آئے اور عدالتی فیصلے کو عوامی انداز میں چیلنج کر دیا تو پھر حالات کی خرابی اور انتخابات کا منظرنامہ یکسر تبدیل ہو سکتا ہے ۔