لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) احتساب عدالت سے ملنے والی سزاؤں کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز نے جلا وطنی اور سیاسی پناہ کے آپشن اختیار کرنے کی بجائے جمعہ کے روز وطن واپسی کا اعلان کیا ہے۔
نواز شریف ان کی بیٹی مریم نواز نے مشکل حالات میں وطن واپسی اور قید کی سزا بھگتنے کا ایک بڑا فیصلہ کیا ہے جو خود ان کی جماعت کیلئے بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے کہ ان کی جماعت اپنے لیڈر سے یکجہتی کے اظہار کیلئے کیا کرتی ہے۔ کتنی تنظیمی اور سیاسی قوت کو بروئے کار لاتی ہے تو دوسری جانب نواز شریف، مریم نواز کی موجودہ صورتحال میں وطن واپسی کا اعلان خود حکومت کیلئے بھی بڑا امتحان ہو گا کہ وہ ان کی آمد پر صورتحال کو پر امن رکھنے کیلئے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے کیونکہ بظاہر آنے والے انتخابات کے بروقت انعقاد کے حوالے سے اب کوئی مشکل اور چیلنج نظر نہیں آ رہا البتہ کوئی بڑا واقعہ نہ چاہنے کے باوجود انتخابی عمل کے بروقت انعقاد پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ لہٰذا اب دیکھنا یہ پڑے گا کہ احتساب عدالت سے ہونے والی سزاؤں کے عمل کے لیے نواز شریف، ان کی بیٹی نے وطن واپسی کا فیصلہ کیونکر کیا، ان کی وطن واپسی اور جیلوں میں جانے کے عمل کے اثرات ملکی سیاست اور انتخابات پر کیا ہوں گے اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ صورتحال سے کس طرح نمٹ پائے گی۔
جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ احتساب عدالت سے سزاؤں کے عمل کے بعد نواز شریف اور مریم نواز کے پاس آپشنز کیا تھے۔ سزاؤں کا عمل ان پر کس حد تک اثر انداز ہوا تو مذکورہ عدالتی سزا کے حوالے سے خود نواز شریف پہلے سے بھی عوامی سطح پر اپنا سیاسی کیس پیش کرتے نظر آئے تھے اور متوقع بھی تھا جو ہوا عدالتی فیصلہ آیا مگر نواز شریف، ان کی بیٹی نے ان کے خلاف قانونی محاذ کے ساتھ ساتھ سیاسی اور عوامی محاذ کو بھی بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا اگر عدالتی فیصلوں پر نظر دوڑائی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ 28 جولائی کو ہی نواز شریف کی نا اہلی کے حوالے سے فیصلہ کو کرپشن سے جوڑنے کے بجائے اقاما کے ساتھ جوڑ کر کوئی مضبوط فیصلہ نہیں کیا گیا جس پر ان کے بڑے سیاسی دشمن بھی ان کے خلاف فیصلہ کو ایک کمزور فیصلہ قرار دیتے نظر آئے اور اب ایک مرتبہ پھر ان کے خلاف احتساب عدالت سے آنے والے فیصلے نے کنفیوژن کو ختم کرنے اور انہیں کرپٹ ثابت کرنے کے بجائے ایک اور کنفیوژن یہ کہہ کر طاری کر دی کہ ان کے خلاف کرپشن کے چارجز نہیں البتہ ان کے اثاثے ان کے ذرائع آمدن سے زائد ہیں جس پر خود نیب کو بھی پریشانی کا سامنا ہوا اور ان کو وضاحت کرنا پڑی کہ ذرائع آمدن سے زائد اثاثے بھی کرپشن کی زد میں ہی آتے ہیں۔
بحر حال قانونی موشگافیوں سے بالاتر رہ کر اگر سیاسی محاذ پر فیصلہ کے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو توقع یہ تھی کہ احتساب عدالت کے فیصلہ کے بعد نواز شریف اور ان کے خاندان کو ملزم سے مجرم بنانے کا عمل ان کا سیاسی کیس متاثر کرے گا اور وہ دفاعی محاذ پر چلے جائیں گے ۔ لیکن فیصلہ پر باپ بیٹی کا رد عمل اور پسپائی کے بجائے جارحانہ طرز عمل یہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ پیچھے ہٹنے والے نہیں اور ان کی جانب سے قید کا آپشن قبول کرنے کا عمل ظاہر کر رہا ہے کہ وہ اسی جدوجہد کے حوالے سے یکسو اور سنجیدہ ہیں اور یہ امر اور عمل خود ان کی جماعت اور عوامی سطح پر اسے کس حد تک پذیرائی ملے گی تو یہ دیکھنا ہو گاکہ ان کی جماعت آج کی مشکل صورتحال اور کٹھن حالات میں انتخابات میں اتری ہے اور انہیں عوامی اور سیاسی سطح پر بھی مسائل کا سامنا ہے۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ وہ اپنے قائد نواز شریف سے کس حد تک یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ اس حوالے سے مسلم لیگ ن کی تاریخ اچھی نہیں رہی اور خود نواز شریف بھی ماضی میں یہ گلہ کرتے دکھائی دیئے کہ جب میں نے مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف قدم اٹھایا تو میں نے مڑ کر دیکھا تو نواز شریف قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں کے نعرے لگانے والے پیچھے نہیں تھے آج کی صورتحال کا اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو مسلم لیگ ن کی جانب سے سویلین بالادستی کی جدوجہد میں نواز شریف سے یکجہتی کا اظہار اس حد تک تو نظر آ رہا ہے کہ نواز شریف کے ووٹ بینک سے محفوظ ہوجائے اور انتخابات میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی جائے لیکن آنے والے حالات میں کسی بڑی جدوجہد کا امکان نظر نہیں آ رہا اور اس کی بڑی وجہ خود مسلم لیگ ن کی تنظیمی کمزوری ہے جسے خود جان بوجھ کر ماضی، صرف نظر برتا جاتا رہا البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کی پاکستان آمد اور ان کی جیل یاترا کے موقع پر کوئی بڑا شو ممکن بنا لیا جائے اس کیلئے انتخابی امیدواروں کو بھی بروئے کار لانا پڑے گا۔ جس کیلئے کاوشیں شروع ہو چکی ہیں البتہ خود مسلم لیگ ن کی موجودہ قیادت شہباز شریف اور دیگر کو پہلے یکسوئی اختیار کرنا پڑے گی۔ کیونکہ حالات و واقعات یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ابھی خود جماعت کے اندر کنفیوژن ہے اور ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ بروقت انتخابات کے انعقاد کے نکتہ پر خود مسلم لیگ ن کے ذمہ داران اپنے لیڈر اور قائد کو ہونے والی سزا کے اور بھی کسی رد عمل کے اظہار سے روکتے نظر آئے ۔ یہی وجہ تھی کہ کوئی بڑا رد عمل دیکھنے کو نہیں ملا۔
لہٰذا ایک جانب یہ صورتحال ہے تو دوسری جانب اب خود نواز شریف کی آمد پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا بھی امتحان ہے۔ نگران حکومت میں تو اتنی سکت نہیں کہ وہ ان کی آمد استقبال اور گرفتاریوں کے عمل کا بندوبست کر سکے ۔ البتہ اس کیلئے اسٹیبلشمنٹ کو ہی اس چیلنج اور امتحان سے نمٹنا پڑے گا اور یقینا وہ یہ نہیں چاہے گی کہ مجرم نواز شریف ان کی بیٹی کا وطن واپسی پر اتنا بڑا استقبال ہو ۔ لہٰذا کوشش یہی ہو گی کہ استقبال بڑا نہ ہو لوگ لاہور نہ پہنچ سکیں۔ لاہور کے اندر خوف و ہراس کی صورتحال طاری ہو جائے کہ عوام باہر نہ نکلیں۔ جمہوری و سیاسی عمل کے ذریعے بننے والی قوتوں کا زور اور طاقت کا خاتمہ تو اس صورت میں ممکن ہے ورنہ پیپلز پارٹی جیسی جماعت کو جرنیل بھی ختم نہ کر سکے جو کہ ان کی لیڈر شپ نے انہیں تاریخ کے اس موڑ پر کھڑا کیا کہ ایک بڑی اور قومی جماعت اور سندھ کے چند اضلاع تک محدود ہو گئی اور ان کا انحصار بھی آنے والے انتخابات پر ہے ۔ مسلم لیگ ن کو سیاسی محاذ پر شکست تو دی جا سکتی ہے مگر قیادتوں کو عدالتی فیصلوں کے ذریعے توڑ کر سیاسی میدان سے باہر نہیں کیا جا سکتا۔ سوچنے کا مقام یہی ہے کہ عدالتی نا اہل اور مجرم نواز شریف آج بھی قومی سیاست کا محور کیوں ہے ۔ حکومت سے نکالنے والے اسے سیاست سے نہیں نکال سکتے ۔