لاہور: (تجزیہ :سلمان غنی) پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر سابق صدر آصف زرداری اور ان کے صاحبزادے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے سیاسی قیادت خصوصاً سابق وزیراعظم نوازشریف اور پی ٹی آئی کے لیڈر عمران خان کو ٹارگٹ کرنے کا عمل یہ ظاہر کر رہا ہے کہ پیپلز پارٹی جیسی جمہوری جماعت آنے والے سیاسی حالات اور انتخابات میں اپنے سیاسی فلسفے اپنی سیاسی تاریخ عوام کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ کے بڑے نعرے روٹی کپڑا اور مکان کی بجائے اب محض اپنی حریف سیاسی شخصیات کو اپنا ہدف بنائے گی اس حکمت عملی کا اسے کتنا فائدہ ہو گا ؟ عوام میں اسے کتنی پذیرائی ملے گی ؟ملکی سیاست پر اس کے کیا اثرات ہوں گے ؟
جہاں تک حکمت عملی کا سوال ہے تو ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کا یہ اجتماع آئندہ عام انتخابات کے حوالہ سے پیپلز پارٹی کا ترقی پسند اور عوام دوست منشور پیش کرنے کا حقیقی موقع تھا مگر پارٹی کی قیادت خصوصاً آصف علی زرداری نے اس موقع پر تعمیری سوچ کی بجائے اپنی تندوتیز تقریر کا محور اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف نوازشریف کی ذات کو بنایا۔
سیاسی میدان میں نوازشریف ان کے بنیادی حریف ضرور ہیں مگر پیپلز پارٹی کا اصل نقصان عمران خان کی تحریک انصاف نے کیا ہے ۔ 2008 سے 2013 تک اپنے عہد اقتدار میں زرداری ہاتھ پر ہاتھ دھرے محض ڈرائنگ روم کی سیاست فرماتے رہے اور ملک مختلف بحرانوں اور طوفانوں میں گھرا رہا یہی وجہ تھی کہ نوازشریف 2013 کا الیکشن جیتنے اور حقیقی اپوزیشن کا کردار بھی پیپلز پارٹی کی بجائے عمران خان لے اڑے ۔پیپلز پارٹی سے سیاسی میدان عمران خان نے چھینا ، غصہ نوازشریف پر کیوں ہے ؟
سینیٹ الیکشن کا کریڈٹ پیپلز پارٹی کی جمہوری ساکھ پر اثرانداز ہو رہا ہے ۔پیپلز پارٹی جو پہلے ہی عوام میں بنیادی حقوق کے حوالے سے اپنا ماضی کا کردار کھو رہی ہے وہ اس طرح کا غیر جمہوری کردار اور اسٹیبلشمنٹ کے کیمپ میں کھڑی ہو کر سیاسی داؤ پیج کھیل رہی ہے جو کہ اس کی نظریاتی سیاست کے خلاف ہے ۔ سیاست کا حقیقی تجزیہ یہ بتا رہا ہے کہ بلوچستان اور سینیٹ الیکشن کے بعد بھی زرداری پنجاب میں سرمایہ کاری کے ذریعے اور اسٹیبلشمنٹ کندھوں پر سوار ہو کر عوام میں ووٹ مانگیں گے اور پیپلز پارٹی جوڑ توڑ اور غیر جمہوری ہتھکنڈوں کے ذریعے کچھ سیٹیں تو ضرور حاصل کر سکے گی مگر یہ سارا عمل اس کی نظریاتی ساکھ اور غیر جمہوری قوتوں کے آگے ڈٹ جانے کی پہچان کھو بیٹھے گی۔ زرداری تو اپنی سیاسی اننگز کھیل گئے مگر بلاول کو ایک ایسے سیاسی ماحول میں چھوڑ جائیں گے جہاں پیپلز پارٹی کی پہچان فوج سے لڑ جانے اور بنیادی حقوق و آئین کی خاطر کوڑے کھانے والی عوامی جماعت کی بجائے ڈرائنگ روم کی کنگز پارٹی کی ہو گی۔
جہاں تک پنجاب کو ن لیگ سے چھیننے کے زرداری کے دعوؤں کو انتخابی سیاست میں پرکھا جائے تو ہر ضمنی الیکشن اس جماعت کی انتخابی مقبولیت کا بھانڈہ پھوڑ رہا ہے ماضی کی پیپلز پارٹی کی بجائے زرداری کی جماعت اب ہزاروں نہیں بلکہ سینکڑوں ووٹوں تک محدود ہو گئی ہے ۔ جہاں تک زرداری کی محاذ آرائی اور نواز مخالف یک نکاتی ایجنڈے کی بات ہے تو اس کے سیاسی محاذ پر مزید برے اثرات ہونگے ۔
دھیرے دھیرے ہماری سیاست واپس 90 کی دہائی کی جانب جاتی دکھائی دے رہی ہے غدار’ مودی کے یار’ ملک دشمن اور کرپشن کے الزامات کو اس طرح کے لب و لہجے مزید بڑھا رہے ہیں۔ بینظیر کی شہادت کے بعد نواز اور زرداری نے کافی سنجیدہ انداز میں سیاست کا دھارا بدلنے کی کوشش کی تھی مگر زرداری کی بقاء اس میں ہے کہ محاذ آرائی کو بڑھائے زرداری کی مفاہمت پہلے ہی پیپلز پارٹی کو خسارے سے دوچار کر چکی کیونکہ پیپلز پارٹی گورننس کے میدان میں ناکام ہو چکی ہے ۔ اس لیے سیاسی درجہ حرارت کو نقطہ کھولاؤ تک پہنچانا اس کے سیاسی بقا کی ضمانت ہے ۔ مگر اس سے اجتماعی طور پر کارزار سیات مزید گرم ہو گا۔ جہاں پہلے ہی عمران خان جیسی بے چین سیاسی روح کا راج ہے اور اقتدار سے نکالے گئے زخمی نوازشریف کا نقطہ نظر موجود ہے وہاں زرداری صاحب کی مفاہمت مخاصمت اور جنگ میں بدل کر سیاست کا رنگ مزید تلخ کر دے گی۔ کیونکہ وہ نوازشریف سے گلہ رکھتے ہیں کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ان کی کمر میں چھرا گھونپا اور اب سیاسی طور پر پیپلز پارٹی ان کی چھٹی کرا کے رہے گی۔ مگر اس ساری اقتدار کی جنگ میں وہ کردار ادا کرے گی جو ماضی میں پیپلز پارٹی مخالف جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر کرتی تھیں۔