واشنگٹن: (ویب ڈیسک) برطانوی میڈیا کی طرف سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے بعد امریکا میں مارشل لاء کا امکان ہے، یہ خبریں امریکا بھر میں سوشل میڈیا سمیت موبائل پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ پر تیزی سے پھیل رہی ہے، امریکی انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
برطانوی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے بعد امریکا میں مارشل لا کا امکان ہے۔ امریکی فوجی قیادت نے کرونا کے پھیلنے پر متبادل انتظام کی منصوبہ بندی کرلی، حکومت وائرس سے متاثر ہوئی تو فور سٹار جنرل کمانڈ سنبھالے گا۔ امریکی فوجی قیادت نے کرونا وبا کے پھیلنے پر متبادل انتظام کی منصوبہ بندی کرلی ہے اور اگر سیاسی قیادت کروناوائرس کا شکار ہوئی تو مارشل لاء لگایا جاسکتا ہے۔
دریں اثنا امریکی سابق قومی سلامتی مشیر نے امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ کافی مرتبہ خبردار کرنے کے باوجود عالمی وبائی مرض کے مقابلے کے لئے مناسب تیاری کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی ٹیم نے ٹرمپ انتظامیہ کے عہدیداروں کو ممکنہ وباء کے خطرے سے آگاہ کیا تھا۔ اوباما انتظامیہ کی قیادت میں گلوبل ہیلتھ سیفٹی اور بائیوڈیفینس آفس قائم کیا تھا۔اس دفتر کو دو سال قبل بند کردیا گیا۔ ٹرمپ انتظامیہ کا2018 میں اس دفتر کو بند کرنا موجودہ وبائی صورتحال سے نمٹنے میں موجودہ حکومت کی سست روی کی ایک وجہ قرار دیا جاسکتاہے۔
سابق قومی سلامتی مشیر کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس سے ہلاک افراد کی تعداد 14ہزار 668 ہو گئی ہے جبکہ3 ہزار 38 ہزار سے زائد افراد اس خطرناک وائرس سے متاثر ہو ئے ہیں۔ اب تک مجموعی طور پر 96958 افراد صحت یاب ہو چکے ہیں جبکہ 2 لاکھ 18233 افراد ابھی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں جن میں سے 10298 افراد کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ اگر سیاسی قیادت بھی کرونا وائر س کا شکار ہوئی تو امریکا میں مارشل لا لگایا جا سکتا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’این بی سی رائٹ ناؤ‘ کے مطابق مارشل لاؤ کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں، دو ماہ کے لیے سٹاک کرنے کی خبریں حیران کن ہیں۔
خبر رساں ادارے کے مطابق نیشنل سکیورٹی کونسل نے بھی ان افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں کرونا وائرس ضرور ہے، لیکن یہاں مارشل لاء نہیں آ رہا۔ شہریوں سے درخواست ہے کہ انتظامیہ سے تعاون کریں۔