نئی دہلی: (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں جہاں چین سے پھیلنے والے کرونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے وہیں پر وائرس سے متعلق جعلی اور گمراہ کن خبریں سوشل میڈیا پر پھیل رہی ہیں، بھارت میں بھی کرونا وائرس کے متاثرین کی تعداد 47 سے تجاوز کرگئی ہے لیکن جعلی اور گمراہ کن خبروں اور سوشل میڈیا میں بے بنیاد رپورٹس کے باعث بڑے پیمانے پر خوف پھیل چکا ہے۔
عرب خبر رساں ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں جہاں آبادی کی کثرت، صحت کا ناقص نظام اور خراب انفرااسٹرکچر کے ساتھ ساتھ جعلی اور بے بنیاد خبریں بھی کرونا وائرس کے حوالے سے شہریوں میں خوف پھیلانے کا باعث بن رہی ہیں۔
بھارت میں سوشل میڈیا کے وسیع نیٹ ورک سے کرونا وائرس کے حوالے سے جھوٹی خبروں کی ایک لہر آگئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے غیر مصدقہ علاج اور بچنے کے لیے جعلی ہدایات سامنے آرہی ہیں جس میں آئس کریم، چکن اور دیگر اشیا کھانے سے گریز شامل ہے۔
کرونا وائرس کے حوالے سے مزید کہا گیا ہے کہ بھارت کے سوشل میڈیا میں سازشی خیالات بھی شیئر کیے جارہے ہیں اور موبائل فون میں جعلی خبروں کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 7 مارچ کو شہریوں سے اپیل کی تھی کہ وہ کرونا وائرس کے حوالے سے افواہوں پر کان نہ دھریں۔ کرونا وائرس کے خوف سے بھارت کا اسٹاک ایکسچینج 2010 کے بعد پہلی مرتبہ کم ترین سطح پر آگیا ہے۔
بھارت میں جہاں آبادی زیادہ ہے اسی طرح سوشل میڈیا صارفین کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے جو کرونا وائرس کے خلاف جنگ کو مزید گھمبیر کرنے کا باعث بن رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق واٹس ایپ کے صارفین کی سب سے بڑی مارکیٹ بھارت ہے جہاں 40 کروڑ سے زائد شہری واٹس ایپ کا استعمال کر رہے ہیں اور 2017 میں 45 کروڑ 80 لاکھ افراد سمارٹ فون استعمال کر رہے تھے۔
بھارت میں واٹس ایپ پر پھیلائی گئی افواہوں کے نتیجے میں گزشتہ چند برسوں میں بچوں کے اغوا اور دیگر جعلی خبروں کے باعث درجنوں افراد شہریوں کے غصے کا شکار ہوچکے ہیں اور ہجوم کی جانب سے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
اعداد و شمار پر تحقیق کرنے والی بھارت کی ویب سائٹ کی محقق ساچی ستاریا کا کہنا تھا کہ جب سے دسمبر میں چین میں کرونا وائرس سامنے آیا ہے خاص کر واٹس ایپ کے ذریعے گمراہ کن خبریں پھیلنا شروع ہوگئی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں عام طور پر بھارت میں صحت کے حوالے سے اس قدر افواہوں کا سلسلہ دیکھنے کو نہیں ملتا، اس سے قبل ہمیں صحت کے معاملات پر ہفتے میں ایک یا دو جعلی خبریں ملتی تھیں لیکن اب روزانہ 5 سے 6 خبریں سامنے آتی ہیں جو زیادہ تر کرونا وائرس سے متعلق ہوتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ایک پیغام میں یونیسیف کا حوالہ دے کر کہا گیا تھا کہ آئس اور دیگر ٹھنڈے چیزوں سے اجتناب کریں اور کپڑوں کو مسلسل دھوتے رہیں کیونکہ کرونا وائرس جب کپڑوں میں گرتا ہے تو 9 گھنٹوں تک موجود رہتا ہے۔
ایک اور پیغام میں کہا گیا تھا کہ وٹامن سی کی حامل چیزوں کو زیادہ زیادہ استعمال کریں اور دوسرا پیغام تھا کہ وائرس سے بچاؤ کو ٹیسٹ خود کریں۔
بھارت کے سوشل میڈیا میں گردش کرنے والی افواہوں میں ایک خبر یہ بھی تھی کہ پیاس کی حالت میں نہ رہیں کیونکہ جب ایک مرتبہ گلا خشک ہوگیا تو وائرس 10 منٹ کے اندر جسم میں داخل ہوجاتا ہے۔
سوشل میڈیا میں وائرل ہونے والا ایک پیغام ہندو مذہب کے حوالے سے بھی تھا جس میں ہندوؤں کے اجتماعات کی فہرست دی گئی تھی اور فخر سے کہا گیا تھا کہ انہیں کبھی بھی بیماری لاحق نہیں ہوئی اور کہا گیا تھا کہ مبینہ طور پر چند ممالک کی کھانے کی عجیب عادات پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔
مذکورہ پیغام کو ہندو مذہب کی تعلیمات کو سراہتے ہوئے ختم کیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق واٹس ایپ میں ویڈیو بھی پھیلائی جارہی ہیں جو واضح طور پر چین سے متعلق ہوتی ہیں۔
سرکاری اداروں کی جانب سے ان میں سے کئی ویڈیوز کے پرانی ہونے کے حوالے سے وضاحت بھی دی گئی ہے جن میں فلموں کے مناظر بھی شامل تھے۔
بھارت میں سوشل میڈیا میں افواہوں سے خوف اس قدر بڑھ گیا کہ شہریوں نے ان سوالوں کے جوابات ڈھونڈنے کے لیے یوٹیوب میں تلاش شروع کردی جہاں ویڈیوز کی شکل میں مزید افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔
بھارت میں ایک اندازے کے مطابق یوٹیوب کے ماہانہ 26 کروڑ 50 لاکھ فعال صارفین موجود ہیں۔ ایک یوٹیوب چینل نے 6 منٹ کی مختلف ویڈیوز بنائیں جس کے ناظرین کی تعداد 62 لاکھ سے زائد ہے۔
یوٹیوب میں بھی افواہیں گردش کر رہی ہیں جہاں ایک چینل میں کہا گیا کہ کرونا وائرس سمندری خوراک سے پھیلا ہے اور اس ویڈیو47 لاکھ سے زائد شہریوں نے دیکھا۔
اسی طرح دوسرے چینل میں بتایا گیا کہ وائرس کو چین کی حکومت نے لیبارٹری سے لیک کردیا جہاں اس کو تیار کیا گیا تھا تاکہ حریف ممالک کو نشانہ بنایا جائے اور اس ویڈیو کو 7 لاکھ 65 سے ہزار سے زائد صارفین نے دیکھا۔
اس چینل کے تخلیق کار وشال پراجاپاتی کا کہنا تھا کہ چینل جعلی خبریں نہ پھیلانے کے لیے انتہائی خیال رکھتا ہے اور اصرار کر رہے تھے کہ ان کی معلومات مصدقہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے ایک انگریزی خبروں کی کلپ دیکھی جو چین کے نیوز چینلز سے ملتی جلتی تھی جس میں یہی کہا گیا تھا اسی لیے میں نے سمجھا کہ بھارتی صارفین کے لیے یہ دلچسپ ہوسکتی ہے۔