نئی دہلی: (دنیا نیوز) کرونا وائرس کے علاج سے متعلق سوشل میڈیا پر ان دنوں بہت سی ایسی معلومات وائرل ہو رہی ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ ان افواہوں کے دھوکے میں آ کر مریض سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جو ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے گھریلو ٹوٹکوں پر مشتمل افواہوں پر کان دھرتے ہیں اور ایک بیماری سے شفا پانے کی بجائے دیگر کئی عوارض کا شکار ہو جاتے ہیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف 7 جبکہ بھارت میں 40 افراد کرونا کا شکار ہوئے ہیں جبکہ ٹویٹر، واٹس ایپ اور فیس بک پر کرونا وائرس سے متعلق غلط دعووں کی بھرمار ہے۔ ڈاکٹر نے کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کی علامات بتائی ہیں جن کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے، اس لئے ان علامات کے علاوہ اگر آپ کے جسم میں کوئی تبدیلی آتی ہے تو بالکل پریشان نہ ہوں، وہ کرونا نہیں۔
کرونا وائرس کی علامات میں بخار، تھکن اور خشک کھانسی شامل ہیں، کچھ مریضوں کو سر درد، ناک کا بہنا، گلے کی خرابی اور سر درد سمیت جسم کے مختلف حصوں میں درد ہونے کی علامات بھی ظاہر ہو سکتی ہیں۔ ان بنیادی علامات کے علاوہ اگر مزید کچھ محسوس کریں تو فوری ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
اب علاج سے متعلق افواہوں پر بات کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ادرک یا گرم پانی کو کرونا کا علاج بتایا گیا ہے حالانکہ اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ اگر آپ کو کرونا وائرس کا شک ہو تو فوری ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
نمونیا ویکسین یا انٹی بایوٹکس کو کرونا کا علاج بتایا جا رہا ہے، اس کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں۔ مزید یہ کہا جا رہا ہے کہ کرونا سے صرف بوڑھے افراد متاثر ہوتے ہیں بچے نہیں۔ یہ بھی غلط ہے، کرونا میں ہر عمر کے افراد مبتلا ہو سکتے ہیں۔ صرف ماسک پہن کر مطمئن نہ ہو جائیں، چہرے پر لگانے کے ماسک کرونا سے مکمل طور پر نہیں بچاتے، اس کیلئے آپ کو بار بار ہاتھ دھونا بھی ضروری ہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ درجہ حرارت بڑھنے سے کرونا وائرس کا خطرہ کم ہو جاتا ہے، ڈاکٹر اس رائے سے بھی متفق نہیں، ان کا کہنا ہے کہ ایسا صرف خیال ہی ہے، گرمی کا موسم آنے پر ہی اصل صورتحال سامنے آئے گی۔ کیا کرونا وائرس قابل علاج ہے، اس کا جواب ڈاکٹر یوں دیتے ہیں کہ کرونا وائرس سے متاثرہ 80 فیصد افراد موت بچ گئے تاہم دل کے مریض، شوگر اور ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا افراد کرونا میں زیادہ مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر کا مزید کہنا تھا کہ بخار، کھانسی اور سانس لینے میں مشکل پیش آنے پر ڈاکٹر سے فوری رابطہ کریں۔