لاہور: (دنیا نیوز) 9 ستمبر 2020 کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور کے علاقے گجرپورہ میں لاہور سیالکوٹ موٹروے پر مدد کی منتظر خاتون کو درندہ صفت دو افراد نے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔
خاتون اپنے بچوں کے ساتھ سفر کر رہی تھی تاہم گاڑی میں پیٹرول ختم ہونے کی وجہ سے سڑک کنارے گاڑی پارک کرکے پولیس اور گھر کے افراد سے رابطہ میں مصروف تھیں۔
مبینہ طور پر ڈکیتی کی غرض سے آئے دو افراد عابد ملہی اور شفقت علی نے گاڑی کا شیشہ توڑ کر خاتون اور بچوں کو گاڑی سے باہر نکالا، موٹروے کے گرد لگی باڑ کاٹ کر قریبی جھاڑیوں میں لے گئے اور خاتون کی عصمت دری کی۔
اس واقعہ کے رونما ہونے کی وجوہات جانچی گئیں تو موٹروے پولیس نے یہ کہہ کر واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کیا کہ جس جگہ خاتون کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا وہ موٹروے پولیس کی حدود میں شامل نہیں ہے۔
اس معاملے پر نئی بحث اس وقت چھڑی جب ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے متاثرہ خاتون پر ہی سوالات اٹھا دئیے اور کہا کہ اکیلی خاتون کو رات کے 12 بجے موٹروے سے جانے کی ضرورت کیا تھی؟ وہ جی ٹی روڈ سے کیوں نہ گئیں جہاں آبادی تھی؟
سی سی پی او لاہور عمرشیخ کے اس بیان پر سیاسی، سماجی و انسانی حقوق کے نمائندوں سمیت عوام نے شدید رد عمل دیا۔ سوشل میڈیا پر سی سی پی او کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا گیا جو کہ ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے اس بیان پر سی سی پی اولاہور کو شوکاز نوٹس جاری کردیا تھاجبکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے دیگر حکام سمیت سی سی پی او لاہور کو طلب کیاتھا اور خوب سرزنش کی تھی۔
موٹروے زیادتی کیس سے متعلق میڈیا پر اٹھنے والے سوالات اور شدید عوامی غم و غصے کے بعد حکومت نے ملزمان کی گرفتاری کے حوالے سے کوششیں تیز کیں۔ 14 ستمبر کو سی آئی اے کی ٹیم نے موٹروے زیادتی کیس کے ایک ملزم شفقت علی کو دیپالپور کے نواحی گاؤں سے گرفتار کیا۔
تاہم مرکزی ملزم عابد ملہی گرفتاری سے پہلے 5 بار بھاگنے میں کامیاب ہوا۔ عابد ملہی کو واقعے کے 30 دن بعد 12 اکتوبر کو فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا جس پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے پولیس ٹیم کیلئے پچاس لاکھ روپے انعام کا اعلان بھی کیا تھا۔
تحریر: مہروز علی خان، احمد ندیم