لاہور: (دنیا نیوز) پاکستان میں کورونا کا پہلا کیس 26 فروری کو کراچی سے رپورٹ ہوا جس کے بعد آئے روز نئے کیسز سامنے آتے گئے اور تشویش میں اضافہ کرتے گئے۔
سال نو کے آغاز میں عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بننے والی ایک خبر نے دنیا بھر کے ماہرین صحت کو پریشانی میں مبتلا کیا جو کہ ایک ایسے مہلک وائرس سے متعلق تھی جو مبینہ طور پر چین کے شہر ووہان میں جانوروں کی ایک مارکیٹ سے پھوٹا اور بڑی تیزی سے پھیل رہا تھا۔ اس نئے وائرس اور اس کے ممکنہ نقصانات کو سمجھنے میں جتنا وقت لگا اس دوران یہ وائرس چین کے علاوہ امریکہ، جاپان، تھائی لینڈ ، جنوبی کوریا اور دیگر ممالک تک پھیل چکا تھا اور پاکستان میں بھی حکام نے جنوری کے اواخر میں کورونا وائرس کے حوالے سے تنبیہ جاری کی تھی۔
پھر دیکھتے ہی دیکھتے کورونا کی وبا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور شدید طبی بحران پیدا کردیا۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے جو اقدامات اٹھائے گئے اس کے نتیجے میں عالمی سطح پر کاروباری سرگرمیاں رک گئیں جس کی وجہ سے دنیا کے بیشتر ممالک کو معاشی بحران کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ دریں اثنا کورونا وبا سے متعلق غلط معلومات بھی بڑی تیزی سے پھیلیں اورعوام کی ذہنی صحت کو شدید متاثر کیا۔
پاکستان میں کورونا کا پہلا کیس 26 فروری کو کراچی سے رپورٹ ہوا جس کے بعد آئے روز نئے کیسز سامنے آتے گئے اور تشویش میں اضافہ کرتے گئے۔ جوں جوں صورتحال سنگین ہوتی گئی اپوزیشن جماعتوں نے تحریک انصاف کی حکومت کو موثر اقدامات نہ اٹھانے کے الزام میں شدید تنقید کی نشانہ بنایا اور ملک میں مکمل لاک ڈاؤن کا مطالبہ کیا۔
وزیراعظم عمران خان مکمل لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں تھے جس کی وجہ سے وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان کورونا سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی کا اختلاف شدید تر ہوتا گیا۔
بالاخر 23 مارچ 2020ء کو سندھ حکومت نے صوبے میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا اور تب تک ملک میں 803 افراد میں کورونا کی تشخیص جبکہ 6 اموات ہو چکی تھیں۔
وزیراعظم کی مخالفت کے باوجود اگلے روز 24 مارچ کو پنجاب حکومت نے بھی لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا۔ وفاقی حکومت نے لاک ڈاؤن جیسا سخت فیصلہ نہ کرنے کی وجہ دیہاڑی دار مزدور قرار دیا تھا، تاہم مارچ کے اواخر میں ملک میں کورونا کیسز بڑھنے پر وفاقی حکومت نے بھی لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا اور اس حوالے سے ایس او پیز جاری کیں۔
دنیا بھر میں اب تک کورونا کی وبا سے 8 کروڑ 17 لاکھ 69 ہزار 157 افراد متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں سے 2 کروڑ 20 لاکھ 73 ہزار 717 ایکٹیو کیسز ہیں جبکہ 5 کروڑ 79 لاکھ 11 ہزار 370 مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔
کورونا وائرس کے باعث اب تک 17 لاکھ 84 ہزار 70 اموات واقع ہو چکی ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک امریکہ ہے جہاں کیسز کی کل تعداد 1 کروڑ 97 لاکھ 81 ہزار 718 ہے اور 3 لاکھ 43 ہزار 182 اموات ہو چکی ہیں۔ پاکستان میں اب تک کورونا کے 4 لاکھ 75 ہزار 85 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں سے ایکٹیو کیسز کی تعداد 39 ہزار 599 ہے جبکہ 4 لاکھ 25 ہزار 494 کورونا مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں اب تک 9 ہزار 992 کورونا مریض کی اموات ہو چکی ہیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق کورونا کی وجہ سے ملک میں 142 ڈاکٹرز زندگی کی بازی ہار بیٹھے ہیں، جن میں سے پنجاب سے 61 ، سندھ سے 46 ، خیبر پختوانخوا سے 26، بلوچستان سے 5 ، گلگت سے ایک اور آزاد کشمیر سے 3 ڈاکٹرز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 26 پیرامیڈکل ہیلتھ ورکرز کی اموات ہو چکی ہیں۔
ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے رجحان پر نظر رکھنے اور اس وباءسے نمٹنے کیلئے درکاراقدامات کی رہنمائی کیلئے مارچ میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔کورونا وباءسے متعلق قومی حکمت عملی بنانے کے لیے قائم کیے گئے اس ادارے کی سربراہی وفاقی وزیر اسد عمر کر رہے ہیں جبکہ اس کے دیگر ممبران میں چاروں صوبوں و گلگت بلتستان کے وزراءاعلیٰ، آزاد کشمیر کے وزیراعظم اور سول و عسکری حکام شامل ہیں۔
این سی او سی ملک بھر سے کورونا وائرس سے متعلق معلومات جمع کرنے، اس پر تجزیہ کرنے اور قومی رابطہ کمیٹی کو سفارشات پیش کرنے اور فیصلوں پر عملدرآمد کروانے کی ذمہ داریاںادا کر رہا ہے۔ این سی او سی کے کورونا وائرس جائزہ اجلاسوں میں لاک ڈاؤن کی ضرورت و نوعیت، لاک ڈاؤن کی مدت، قواعد و ضوابط پرعملدرآمد، ملک میں طبی سہولیات کا جائزہ اور دیگر اہم معاملات پر مشترکہ قومی پالیسی تشکیل دی جاتی تھی۔
وزیراعظم عمران خان، صدر عارف علوی اور آرمی چیف قمر باجوہ نے مختلف موقعوں پر این سی او سی کا دورہ کیا اور ملک میں کورونا کی صورتحال پر بریفنگ لی۔این سی او سی کے قیام کو سو روز مکمل ہونے پر وزیراعظم نے سینٹر کا دورہ کیا اور کورونا کے خلاف جنگ میں این سی او سی کے کردار کو خوب سراہا۔ وزیراعظم کے ساتھ آرمی چیف ، وفاقی وزراءاور دیگر حکام بھی موجود تھے۔ اس موقع پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ این سی او سی نے جن مشکل حالات میں کورونا سے نمٹنے کیلئے محنت کی ہے اس پر پوری قوم کو فخر ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے 24 مارچ 2020 کو ملک میں عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں آنے والے تعطل اور اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے عوام اور مختلف شعبوں کے لیے ریلیف پیکج کا اعلان کیا۔حکومت کی جانب سے جاری کردہ 1240 ارب روپے (8 ارب ڈالر) کے کورونا ریلیف پیکج نے ملک میں معیشت اور معاشرے کے کمزور طبقات پر کورونا وائرس کے اثرات کم کرنے میں مدد کی۔ اس پیکج کے تحت یومیہ اجرت والے مزدوروں کیلئے 200 ارب روپے کی منظوری دی گئی۔ طبی سامان اور کارکنوں کی ترغیب کیلئے 50 ارب روپے ،فوڈ اینڈ ہیلتھ آئٹمز پر ٹیکس کی مد میں 15 ارب روپے کی چھوٹ دی گئی۔ پیکج کے تحت زراعت اورایس ایم ایز کیلئے 100 ارب روپے منظورکیے گئے۔
یوٹیلیٹی سٹورز کیلئے 50 ارب روپے مختص کیے گئے، سرکاری سطح پرگندم خریداری کیلئے 280 ارب روپے منظور کیے گئے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریلیف کیلئے 70 ارب روپے منظور کیے گئے، بجلی و گیس بلوں میں ریلیف کیلئے 100 ارب روپے مختص کیے گئے۔ہنگامی فنڈز کیلئے 100 ارب روپے مختص کیے گئے، این ڈی ایم اے کو 25 ارب روپے جاری کرنیکی منظوری دی گئی۔
ایکسپورٹ انڈسٹری کیلئے 100 ارب روپے جبکہ غریب خاندانوں کیلئے 150 ارب روپے اور 3 ہزار روپے فی گھرانہ دینے کا اعلان کیا گیا۔حکومت نے ملکی تاریخ میں سب سے بڑی نقد تقسیم "احساس ایمرجنسی کیش پروگرام" شروع کیا جس کے تحت 144 ارب روپے یومیہ اجرت کمانے والے ایک کروڑ 20 لاکھ خاندانوں کو 12 ہزار فی خاندان کی مد میں دیا۔ حکومت کی جانب سے غریب افراد کے لیے پہلے سے جاری احساس اور کفالت پروگرام میں رجسٹر شدہ افراد کے ساتھ ساتھ پینتیس لاکھ مزدوروں کی فہرستیں مرتب کی گئیں،جبکہ ضلعی سطح پر سرکاری حکام (ڈپٹی اور اسسٹنٹ کمشنرز) کو ہدایات جاری کی گئی کہ وہ اپنے اپنے علاقے میں مستحق افراد کی فہرستیں تیار کریں۔ جس کے بعد نادرا کے ذریعے انہیں رقوم کی منتقلی کے مرحلے کا آغاز کیا گیا۔
کورونا وائرس کے بحران سے جہاں دنیا بھر کے ممالک مکمل لاک ڈاؤن لگانے کی اسٹریٹجی کی طرف راغب تھے وہیں وزیراعظم عمران خان نے کووڈ 19 بحران سے نمٹنے کیلئے ”اسمارٹ لاک ڈاؤن“ کو فوقیت دی، جو معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) پر عمل درآمد کرتے ہوئے معاشی سرگرمی کو جاری رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔
وفاق کی اس حکمت عملی کی کامیابی کو دنیا نے تسلیم کیا اور کورونا وائرس کیخلاف کامیاب پالیسیوں کے اعتراف میں ورلڈ اکنامک فارم نے 25 نومبر کو” ©پاکستان اسٹریٹجی ڈے“ منانے کا اعلان کیا۔ وزاعظم عمران خان نے اس دن ورلڈ اکنامک فورم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دیگر ممالک کو کورونا پر قابو پانے کیلئے اسٹریٹجی کے حوالے سے بریفنگ دی جس میں شرکاءکو معیشت اور انسانی جانوں کو ایک ساتھ بچانے سے متعلق حکمت عملی سے آگاہ کیا۔
تحریر: مہروز علی خان، احمد ندیم