لاہور: (دنیا نیوز) پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ 20 ستمبر کو اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد تشکیل پائی جس میں 11 سیاسی جماعتوں کا اتحاد شامل تھا۔ پی ڈی ایم کے ایکشن پلان کے تحت ملک گیر عوامی جلسوں، احتجاجی مظاہروں، دسمبر میں ریلیوں اور جنوری 2021 میں اسلام آباد کی طرف ایک فیصلہ کن لانگ مارچ کرنے کا ارادہ شامل تھا۔
اپوزیشن کی 11 جماعتوں کے اس اتحاد میں پاکستان مسلم لیگ ن،پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت دیگر جماعتیں شامل ہیں۔ اب تک پی ڈی ایم سولہ اکتوبر کو گوجرانوالہ، 18 اکتوبر کو کراچی، 25 اکتوبر کو کوئٹہ ، 22 نومبر کو پشاور اور 30 نومبر کو ملتان جبکہ 13 دسمبر کو پی ڈی ایم کا لاہور میں جلسے کر چکی ہے۔
30 نومبر کو پی ڈی ایم کا ملتان میں ہونے والا جلسہ اس وقت توجہ کا مرکز بنا جب بلاول بھٹو زرداری نے کورونا وائرس کا شکار ہونے کے باعث خود کو قرنطینہ کر لیا۔ ان کی غیر موجودگی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی چھوٹی صاحبزادی آصفہ بھٹو زرداری نے اس جلسے میں شرکت کی جو ان کے سیاسی کریئر کا آغاز سمجھا جا رہا ہے۔
13 دسمبر کو لاہور میں ہونے والے پی ڈی ایم کے جلسے میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ فضل الرحمان نے اعلان کیا کہ31 دسمبر تک اپوزیشن کے قومی و صوبائی اسمبلی کے تمام ارکان اپنے اپنے استعفے اپنی جماعت کے قائدین کو دے دیں جبکہ حکومت کو 31 جنوری تک مستعفی ہونے کی ڈیڈ لائن دی گئی۔
پی ڈی ایم کی جانب سے یہ بھی اعلان کیا گیا کہ اگر حکومت مستعفی نہ ہوئی تو یکم فروری کو لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیا جائے گا۔
ملکی سیاسی صورتحال کے حوالے سے حالیہ ایک اہم پیشرفت یہ سامنے آئی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے سیکرٹری جنرل محمد علی درانی نے شہباز شریف سے کوٹ لکھپت جیل میں ملاقات کی اور ملکی حالات ٹھیک کرنے کیلئے مفاہمت کا کردار ادا کرنے کا کہا۔
محمد علی درانی نے ملاقات میں اس بات پر زور دیا کہ پی ڈی ایم کو استعفوں کی بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ حالات ٹکراؤ کی طرف جانے کے بجائے پرامن طریقے سے حل ہوں۔
ان کے مطابق صدر مسلم لیگ میاں شہباز شریف نےنیشنل ڈائیلاگ کے موقف کی تائید کی ہے البتہ یہ بھی باور کروایا ہے کہ وہ جیل میں بیٹھ کر اس مقصد کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کر پائیں گے۔
اس کے علاوہ جمیعت علمائے اسلام کے کچھ اہم رہنماؤں نے پی ڈی ایم کے بیانیے سے اختلاف کرتے ہوئے راہیں جدا کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ استعفوں کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک کی دیگر جماعتوں کے مابین یکسوئی نہ ہونے کی وجہ سے تحریک کا آئندہ کا لائحہ عمل تذبذب کا شکار ہے۔
تحریر: مہروز علی خان، احمد ندیم