لاہور: (دنیا میگزین) دنیا میں صحت عامہ کے حوالے سے بعض اہم ایجادات سامنے آئی ہیں جنھیں طبی میدان میں اہم کارنامے کہا جا رہا ہے۔ ان میں ڈیجیٹل میڈیکل سروسز، موبائل ٹیکنالوجی اور دیگر شامل ہیں۔
ڈیجیٹل میڈیکل سروسز
ڈیجیٹل میڈیکل سروسز کو ٹیلی ہیلتھ بھی کہا جاتا ہے۔ بڑھتی ہوئی دنیاوی مصروفیات نے لوگوں کا لائف سٹائل بدل کر رکھ دیا ہے، مصروفیت اس قدر ہے کی اپنی صحت کی بھی پرواہ نہیں۔ ڈاکٹر کے پاس جانے کا بھی وقت نہیں۔ ایک سروے میں 60 فیصد لوگوں نے ڈاکٹروں کی بجائے ”ڈیجیٹل میڈیکل سروسز“ سے رجوع کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
امریکہ کے مرکز برائے میڈی کیئر و میڈی کیڈ سروسز“ کے مطابق ٹیلی ہیلتھ سروسز مہیا کرنے والے اداروں کی فیسوں کا تعین حکومت کرے گی۔ عوام کو ان اداروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جائے گا۔ امریکی حکومت نے مریضوں کی سہولتوں کے لیے ڈاکٹروں کو اضافی مراکز قائم کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔
موبائل ٹیکنالوجی کے ذریعے 1 ارب لوگوں کاعلاج
برطانیہ کا سرکاری ادارہ ”نیشنل ہیلتھ سروس“ کے مطابق 2014ء سے 2019ء تک موبائل ٹیکنالوجی کے ذریعے سے ڈیٹا اور صحت عامہ کی ایپلی کیشنز سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد 13 فیصد سے بڑھ کر 43 فیصد ہو گئی ہے۔
برطانوی ادارے اس سلسلے میں عالمی سطح پر اپنی خدمات مہیا کرنا چاہتے ہیں۔ چین میں موبائل پر علاج معالجے کی سہولت مہیا کرنے والے اداروں کی مارکیٹ 14 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ یورپ، ایشیا اور افریقی مریض بھی موبائل ٹیکنالوجی سے مستفید ہونا چاہتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت
مصنوعی ذہانے کی مدد سے ہسپتالوں اور طبی اداروں آپس میں منسلک کرنے کا عمل جاری ہے۔ ان ہسپتالوں میں مریضوں کا مکمل ڈیٹا موجود ہو گا۔ یورپی یونین ایشیا اور امریکہ کی طبی مارکیٹ کو حاصل کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت اور ایپلی کیشنز پر 24 ارب ڈالر خرچ کرے گی۔
گوگل نے بھی صحت عامہ کے شعبے میں کنزیومر ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے وسیع سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ شاید اگلے 10 سے 20 سالوں میں گوگل کا سب سے بڑا کام ہوگا۔
بلاک چین
ادویات کی فراہمی پر اربوں ڈالر سالانہ خرچ ہوتے ہیں، وقت الگ ضائع ہوتا ہے۔ اب سپلائی کا بلاک چین کے نام سے نیا نظام قائم ہو گا۔ اس سلسلے میں عالمی کوریئر سروسز بھی اپنی خدمات پیش کر رہی ہیں۔ جو ادویات کے ایک جگہ سے دوسری جگہ فراہمی کے پورے نظام پر چیک رکھیں گی۔ جس سے 2025ء تک علاج سپلائی کے اخراجات میں 100 ارب ڈالر سے 150 ارب ڈالر سالانہ کی بچت ہو گی جس سے صحت عامہ پر اٹھنے والے اخراجات میں نمایاں کمی ہوگی۔ جبکہ منصوبے پر 2025ء تک ساڑھے پانچ ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔ اس کام میں بڑی بڑی ادویہ ساز کمپنیاں بھی اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ یاد رہے کہ ٹرانسپورٹیشن کی خامیوں سے کم آمدنی والے گھرانے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
خود استعمال کرنے والی مشینیں
اب آپ گھڑیوں اور آرمز بینڈز کی مدد سے بی اپنی صحت کے بارے میں مععلوم کر سکتے ہیں۔ ان مشینوں کو (Health Wearablesیا Health Care Wearables) بھی کہا جاتا ہے۔ لائف سٹائل کی تبدیلی نے انسانوں کو بیماریوں کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ اب شہری اپنا شوگر لیول، دل کی دھڑکن اور ایسی دوسری علامات کو جاننے کے لیے ورزش کے علاوہ چھوٹی چھوٹی مشینوں پر بھی سرمایہ خرچ کر رہے ہیں، وہ ورزشیں بھی کر رہے ہیں اور زیادہ سے زیادہ نیند بھی لینا چاہتے ہیں۔ اب آئی ٹی کے ادارے صحت عامہ کی سہولتوں کو بہتر بنانے کے لیے بلو ٹوٹھ (Bluetooth) ٹیکنالوجی بھی استعمال کر رہے ہیں۔
تھری ڈی پرنٹنگ
امریکہ کی ”فوڈ اینڈ ٹرگ ایڈمنسٹریشن“ نے صحت عامہ کے شعبے میں تھری ڈی میڈیکل پراڈیکٹ کی تیاری کے لیے پہلا جامع فریم ورک جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
امریکہ میں سالانہ صرف گھٹنوں کی سرجری میں استعمال ہونے والے ایک لاکھ آلات تھری ڈی پرنٹنگ کی مدد سے ہی بنائے جا رہے ہیں۔ ان کا حجم تھری ڈی پرنٹنگ کی وجہ سے انتہائی درست ہوتا ہے۔ اس سے سرجن اور مریضوں کے مابین تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔
جینیاتی تجربات
جینیاتی اور بائیو ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی ہونے والی ترقی نے عالمی سطح پر صحت عامہ کے شعبے پر بھی اثر ڈالا ہے۔ چار بڑی کمپنیوں نے مریض کے جینیاتی کوڈ کو سمجھنے اور اس کی مدد سے علاج کے لئے 4 سالہ پروگرام شروع کیا ہے۔ سانئسدان جین کو ایڈیٹ کرکے علاج کریں گے جو بہت کامیاب رہے گا۔
گریویٹی بلینک کٹس
انسانی جسم کے تقریباً 10 فیصد کے وزن کے برابر نئی طبی رضائی تیار کر لی گئی ہے۔ یہ رضائی انسان کو ذہنی تناﺅ سے بچائے گی۔ ذہنی دباﺅ، پریشانی یا کسی اور وجہ سے نیند کے خلل کا شکار افراد کے لیے یہ بہترین چیز ہے۔
ڈرونز
کیلیفورنیا کے ادارے نے انسانی زندگی کو بچانے کےلئے ڈرونز کا استعمال شروع کر دیا ہے۔ یہ ڈرونز 128 کلومیٹر سے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے 2 کلو تک وزنی خون یا طبی آلات ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچائیں گے۔