لاہور:(ویب ڈیسک) یہ خیال کہ ذہن زندگی میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے، مغربی دنیا میں نیا نہیں۔ اٹھارہویں صدی کے فلاسفی ولیم گڈون کے مطابق ’’ہم بیمار پڑتے ہیں اور موت سے ہم کنار ہوتے ہیں… اس کی جزوی وجہ یہ ہے کہ ہم اس کی امید کرتے ہیں اور اس پر اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔
‘‘ اہل مغرب بیماری اور بڑھاپے کے ساتھ جسمانی نقطہ نظر کے تحت نپٹتے ہیں اور ذہنی اور روحانی پہلوؤں میں بہت کم دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں۔ محض حال ہی میں وہ آہستہ آہستہ اور پُریقین انداز میں ذہنی قوتوں کو تسلیم کرنے لگے ہیں۔ ذہنی قوتیں نہ صرف ایک حقیقت ہیں بلکہ بیماریوں کے علاج معالجے میں بھی معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ اس کے متعلق سائنسی شواہد طب کی نسبتاً ایک نئی شاخ سے منظر عام پر آتے ہیں جسے سائیکونیوروامیونالوجی کہا جاتا ہے۔ یہ صحت پر ذہن کے اثرات کا معائنہ کرتی ہے۔ کھلے ذہن کے حامل سائنس دان اب یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ ہماری سوچیں ہمارے مدافعتی نظام کے کچھ حصوں کو متاثر کر سکتی ہیں اور بیماریوں کے علاج معالجے کو آسان تر بنا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر تجربات نے یہ ثابت کیا ہے کہ کئی ایک سرطان کے مریض، جو مثبت ذہنی حالت کے حامل تھے، ادویات کے ساتھ ان کا علاج ان مریضوں کی نسبت زیادہ کارگر ثابت ہوا جو اپنے مقدر سے شکوہ کرتے رہتے تھے اور بدترین صورت حال کی امید رکھتے تھے۔
ان خطوط پر سوچتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ذہن کی درست کیفیت عمر سے متعلق خلیوں اور جسمانی اعضا پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ اس نظریے کی حمایت میں بہت زیادہ سائنسی شواہد موجود نہیں ہیں۔ لیکن تھیوری کے لحاظ سے ایسا ہونا ممکن ہے۔ ایک مثبت ذہنی کیفیت تخلیق کرتے ہوئے ہم اپنے مدافعتی نظام پر اثرانداز ہونے کے قابل ہو سکتے ہیں اور کچھ بیماریوں کو مؤخر کر سکتے ہیں اور اس طرح اپنی زندگی میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ بہت سے لوگ اس نقطۂ نظر کے حامل ہیں کہ حقیقت میں دباؤ، کھچاؤ اور تناؤ درازی عمر کے لیے ایک اچھی علامت ہے۔
کچھ محققین اس نقطۂ نظر کے حامل ہیں کہ ان کی بدولت ہم زیادہ دیر تک زندہ رہ سکتے ہیں اور اس کے شواہد بھی پیش کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں ان افراد کا مطالعہ کیا گیا جنہوں نے سو برس یا اس سے زائد عمر پائی تھی انہوں نے سخت زندگی گزاری تھی۔ وہ دباؤ، کھچاؤ اور تناؤ کا شکار رہتے تھے اور بہت سے بحرانوںسے نپٹتے رہتے تھے۔ دباؤ، کھچاؤ اور تناؤ کے دورانیے کے دوران جسم کو بہتر صورت حال پر قائم رکھنے کے لیے زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جسم کو تحریک دلاتے ہیں کہ وہ زیادہ مؤثر انداز میں اپنی مرمت کر ے۔ لہٰذا یہ بڑھاپے کی تباہ کاریوں کو کم سے کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تاہم دباؤ، کھچاؤ اور تناؤ کو ایک خاص حد تک رکھنا چاہیے۔