لاہور: (دنیا نیوز) متانت سے بھرپور چہرہ، سخت جان جسم کے مالک سہیل عباس دنیائے ہاکی میں سب سے زیادہ گول کرنے والے کھلاڑی ہیں۔
قوموں میں ایسے کئی گمنام ہیروز ہوتے ہیں جو شہرت اور نمود و نمائش سے دور بھاگتے ہیں۔ پاکستان ہاکی ٹیم کے سابق کپتان سہیل عباس بھی شاید ان میں سے ایک ہیں۔
والد افتخار حسین کرکٹر لیکن خود ہاکی کے میدان کے بے تاج بادشاہ۔ قومی ہاکی ٹیم میں 1998ء میں شامل ہوئے اور نیدرلینڈ میں ہاکی ورلڈکپ کھیلا۔ ’’ڈریگ فلک‘‘ کے کنگ کہلانے والے سہیل عباس کا بچپنا بھی عام بچوں جیسا تھا، وہ اپنے شوق کی تکمیل کیلئے لکڑی کی ہاکی کو آگ پر گرم کرکے سکوپ بناتے اور شارٹ کارنر کی پریکٹس کیا کرتے تھے۔
پھر یہ ہی سٹک سہیل عباس کے نام سے مشہور ہوئی اور فیکٹریوں میں بننے لگی۔ 348 گول کرنے والے اس گمنام ہیرو کی 21 گول ہیٹ ٹرکس بھی ہیں۔ ان کی موجودگی میں قومی ٹیم اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ کی فاتح اور ایشین چیمپئن بنی۔
ٹیم میں وہ بطور فل بیک اور مڈ فیلڈر کے کھیلتے رہے۔ ان کے پسندیدہ فل بیک قاضی محب رہے ہیں۔ اپنے ہاکی کیرئیر کے دوران وہ گروئن انجری کا بھی شکار ہو کر کچھ عرصے کیلئے میدان سے باہر رہے۔ ڈومیسٹک ہاکی میں وہ واپڈا کی طرف سے کھیلے اور اپنی ٹیم کو نیشنل چیمپئن بنوایا۔ سہیل عباس کا پہلا گولڈ میڈل ایشین گیمز 2010ء میں تھا۔
پال لیجنز کا سب سے زیادہ گول (267) کرنے کا عالمی ورلڈ ریکارڈ توڑنے کے بعد ہاکی ٹیم سے تین سال کا وقفہ لیا اور لیگ کھیلنے ہالینڈ چلے گئے۔ اس وقت ہالینڈ میں چھ سو سے سات سو تک آسٹروٹرف تھیں جبکہ پاکستان میں اس وقت پانچ چھ آسٹروٹرف گراؤنڈز تھیں۔
ان کے مطابق پاکستان ہاکی میں وقت کے ساتھ ساتھ جدید اصلاحات نہیں کی گئیں۔ وہ ہاکی کے زوال کی وجوہات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک تو پہلے پاکستان میں ہاکی کا سسٹم ایماندار تھا جو اب نہیں ہے اور پھر ہم وقت کے ساتھ ساتھ ہاکی کی جدید ضروریات سے ہم آہنگ نہیں ہوئے۔ سہیل عباس اپنی بات کہنے میں بہت بے باک اور راست گو واقع ہوئے ہیں۔ وہ اپنے انٹرویوز میں لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرتے ہیں۔
سہیل عباس نے 8 اکتوبر 2004ء کو انٹرنیشنل ہاکی میں سب سے زیادہ 268 گول کا عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔ یہ ریکارڈ 25 سال بعد سہیل عباس نے توڑا تھا۔ وہ اپنے یادگار گول کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کا یادگار گول انڈیا کیخلاف تھا جب انہوں نے پال لیجنز کا عالمی ریکارڈ توڑا تھا۔
عالمی ریکارڈ توڑنے کے بعد انہوں نے انٹرنیشنل ہاکی سے دوری اختیار کرلی لیکن 2009ء میں اپنی ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لے لیا اور اذلان شاہ ٹورنامنٹ سمیت لندن اولمپکس 2012ء میں بطور کپتان پاکستان ہاکی ٹیم کی قیادت کی بلکہ اولمپکس میں پاکستانی دستے کا فلیگ اٹھانے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔
ان کی قیادت میں ٹیم نے اولمپکس میں ساتویں پوزیشن حاصل کی۔ ٹیم کی اس ناقص کارکردگی کی وجہ سے سہیل عباس کو ٹیم سے ڈراپ کر دیا گیا۔ اس لئے وہ 2012ء میں انٹرنیشنل ہاکی سے ریٹائر ہو گئے۔
سہیل عباس 9 جون 1975ء کو کراچی کے ہولی فیملی ہسپتال میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حبیب پبلک سکول سے حاصل کی جس کی شہرت اس حوالے سے ہے کہ وہاں’’ہاکی’’ کو بطور مضمون پڑھایا جاتا ہے۔
اس سکول سے کرکٹ اور ہاکی کے سپرسٹار پڑھ کر نکلے۔ اپنے ماموں صفدر عباس سے متاثر ہو کر ہاکی کے میدان میں آئے جنہوں نے 16 سال کی عمر میں 1974ء کے ہاکی ورلڈ کپ میں شرکت کی تھی۔
کھلاڑی پہلے جونیئر ٹیم کا حصہ بنتے تھے بعد میں قومی ٹیم میں شامل ہوتے تھے لیکن سہیل عباس براہ راست سینئر ٹیم کا حصہ بنے۔ 1995ء میں کوئٹہ میں منعقد ہونے والی اٹھارہویں جونیئر نیشنل ہاکی انڈر 18 چیمپئن شپ میں شاندار کارکردگی کے بعد جونیئر سکواڈ میں جگہ تو بنا لی مگر انہیں نیدرلینڈز، جرمنی اور پولینڈ کے بین الاقوامی دوروں میں کھیلنے کا موقع نہیں دیا گیا۔
قومی ٹیم میں شمولیت کے بعد ان کا چرچہ ’’ڈریگ فلک ‘‘کے گول سے ہوا۔ یہ میچ انڈیا کیخلاف پاکستان میں کھیلا گیا تھا۔ اتنی تیز ڈریگ فلک کے وہ ماہر تھے کہ کمنٹیٹر کی آواز گونجتی تھی سہیل عباس کی سکوپ اور گول۔
ان کا سکوپ اتنا تیز ہوتا تھا کہ بعض اوقات ریفری اور گول کیپر کو بھی نظر نہیں آتا تھا۔ ان کی ایک سکوپ تو اتنی تیز تھی کہ گول پوسٹ کے نیٹ سے باہر نکل گئی۔
1999ء میں 60 گول سکور کر کے کیلنڈر ائیر میں سب سے زیادہ گول کرنے کا پال لیجنز کے 58 گول کا بین الاقوامی اور حسن سردار کے 50 گول کا قومی ریکارڈ توڑا۔
انہوں نے اڑھائی سال کی قلیل مدت میں اپنے تیز ترین 100 گول مکمل کئے۔ یہ بھی ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ قدرتی طور پر ’’شارٹ کارنر ایکسپرٹ‘‘ گردانے جانے والے سہیل عباس کو 2002ء میں 10ویں ہاکی ورلڈ کپ کوالالمپور میں سب سے زیادہ گول سکور کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے جہاں انہوں نے سب 10 گول پینلٹی کارنر پر سکور کئے۔ جب وہ پال لیجنز سے ہالینڈ میں ملے تو پال لیجنز نے دیکھتے ہی کہا ’’اولڈ مین از کرائنگ ‘‘(old man is crying)۔
سہیل عباس پاکستان ہاکی فیڈریشن کے حوالے سے ناصرف تحفظات رکھتے ہیں بلکہ وہ ملکی سطح پر اولمپیئنز کے ساتھ بھی فاصلہ رکھتے ہیں۔ انہیں پی ایچ ایف کے ساتھ کام کرنے کی آفر کی گئی لیکن انہوں نے انکار کردیا۔
کچھ سال قبل کراچی میں ہاکی فیڈریشن کی ہال آف فیم تقریب کے ساتھ ورلڈ الیون میچ میں بھی انہوں نے آنے سے معذرت کر لی تھی جبکہ ہاکی فیڈریشن کے سیکرٹری اولمپین آصف باجوہ کے ساتھ ملاقات سے بھی گریز کیا۔
پی ایچ ایف سے بطور کوچنگ منسلک ہونے سے بھی وہ احتراز کرتے ہیں۔ شاید وہ ہاکی کی سیاست میں الجھنا نہیں چاہتے اور دوسرا ان کا موقف ہے کہ جیسے غیر ملکی کوچز کو ادائیگی کی جاتی ہے ان کے ساتھ بھی ویسے ہی معاہدہ کیا جائے۔
انٹرنیشنل ہاکی سے علیحدگی کے باوجود بھی وہ جم اور گراؤنڈ میں رننگ کی عادت کو اپنائے ہوئے ہیں۔ آج کل کراچی میں ہی رہائش پذیر ہیں اور پاکستان ہاکی کے روشن مستقبل کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن نے انہیں پرائڈ آف پرفارمنس کے ایوارڈ کیلئے نامزد کیا تھا لیکن افسوس ابھی تک اس ہاکی کے ہیرو کو پرائڈ آف پرفارمنس نہیں ملا۔