اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) ملکی سیاست میں آئندہ 10 ہفتے انتہائی اہمیت اختیار کر چکے ہیں، اکتوبر کے آخری ہفتے میں ہونے والی تبدیلی کے معاملے نے کئی ایوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
اگرچہ حکومت کی جانب سے وضاحت دی جا چکی ہے کہ وہ اب ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کا ارادہ نہیں رکھتی مگر حکومتی اقدامات کچھ اور ہی بتا رہے ہیں، مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد روکنے بلکہ اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کے عمل نے اکتوبر میں ہونے والی تبدیلی کے معاملے پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، کچھ وجوہات ایسی ہیں جو اِن شکوک و شبہات میں اضافہ کر رہی ہیں۔
8 فروری کے انتخابات کے بعد حکومت سازی کے ساتھ ہی یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں توسیع کی تجاویز زیر غور ہیں، مگر مارچ میں زیر گردش ان خبروں کی تردید کر دی گئی، بعد ازاں خود وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے سے متعلق قانون سازی کا عندیہ دیا، مگر چند ہی ہفتوں بعد وزیر قانون نے یہ کہہ دیا کہ حکومت کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
اب ایک مرتبہ پھر یہ خبریں گردش کرنے لگی ہیں، اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف نے اس اقدام کے خلاف اپنا لائحہ عمل بھی دے دیا ہے مگر حکومت اس معاملے پر کوئی رد عمل نہیں دے رہی، اس حکومتی طرز عمل نے ان شکوک و شبہات کو مزید تقویت بخشی ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
اس معاملے پر شکوک و شبہات میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب حکومت نے دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کیلئے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دیئے تاکہ آئینی ترمیم کر سکے مگر حکومت کی دو تہائی اکثریت کے خواب کو اس وقت دھچکا لگا جب سپریم کورٹ کے 13 رکنی بنچ میں سے 8 جج صاحبان نے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کا حکم دیا اور تحریک انصاف کی بچنے والی نشستوں کو بٹور کر دو تہائی اکثریت بنانے والی حکومت اس سے محروم ہو گئی۔
تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کے بجائے معاملے کو طول دینا شروع کر دیا جبکہ حکومت نے عملد درآمد روکنے کیلئے پارلیمان کا سہارا لیا اور ایسی قانون سازی کی جس کے بعد حکومت کے خیال میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ قابلِ عمل نہیں رہا، یوں ایک سیاسی اور قانونی معاملے کو حکومت نے اپنی بقا کا مسئلہ بنا لیا ہے اور مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر عملدرآمد روکنے کیلئے ہر محاذ کھولنے پر تُلی ہوئی ہے۔
اس معاملے پر شک کے بادل اس وقت بھی منڈلانے لگے جب وزیر دفاع نے اکتوبر کے بعد 8 فروری کے انتخابات ٹارگٹ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا، خواجہ محمد آصف نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں بات کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ رواں برس نومبر میں 8 فروری کے انتخابات کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔
اسی خوف کے پیش نظر حکومت ایسا قانون لا چکی ہے کہ انتخابی دھاندلی کی شکایات حاضر سروس کے بجائے ریٹائرڈ ججز بھی سُن سکیں اور الیکشن کمیشن پہلے سے جاری کیسز کو ان ٹربیونلز کو منتقل کر سکے، الیکشن ٹربیونلز کے یہ معاملات حکم امتناعی کے باعث رکے ہوئے ہیں، حکومت کا خیال ہے کہ عدلیہ میں بڑی تبدیلی کے بعد ٹربیونلز کے معاملات اور الیکشن کی شفافیت سے متعلق پٹیشنز اس کیلئے مسائل پیدا کر سکتی ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے گزشتہ ہفتے پنشنرز سے متعلق کیس کے فیصلے کے ذریعے اور اس کے بعد ایک تقریب سے خطاب کے دوران بڑا واضح پیغام دیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر ہر صورت عملدرآمد کرنا ہو گا ورنہ اس کے سنگین نتائج ہوں گے، تقریب سے خطاب کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا تھا کہ انتظامی اداروں کو سمجھنا ہو گا کہ ان کے پاس سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد کے سوا کوئی چوائس نہیں، عدالتی فیصلہ ٹھیک ہے یا نہیں ، کہنے کا کسی کو اختیار نہیں ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کے اس پیغام کے بعد صورتحال واضح ہو چکی ہے کہ عدلیہ مخصوص نشستوں سے متعلق اپنے فیصلے کا پہرہ دے گی اور نئی قانون سازی کو عدالتی فیصلے پر عملدرآمد میں رکاوٹ نہیں بننے دے گی، عدلیہ اپنے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں سنگین نتائج سے بھی آگاہ کر رہی ہے، اب مخصوص نشستوں سے متعلق تفصیلی تحریری فیصلہ موجودہ صورتحال میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، حکومتی طرزِ عمل اور اس پر عدلیہ کا ردعمل بہت کچھ بتا رہا ہے۔
ایک اور معاملہ جو حکومتی عزائم کی خبر دے رہا ہے وہ نئے چیف جسٹس کے تقرر کے نوٹیفکیشن کا ٹائم فریم ہے، جسٹس قاضی فائز عیسٰی جب چیف جسٹس آف پاکستان بنے تو اُن کی تقرری کا نوٹیفکیشن حکومت نے تین ماہ قبل ہی جاری کر دیا تھا، چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ 25 اکتوبر کو ریٹائر ہونے جا رہے ہیں، دس ہفتوں سے بھی کم وقت رہ جانے کے باوجود نئے چیف جسٹس کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری نہ کیا جانا زیر گردش خبروں کو تقویت بخش رہا ہے۔
حکومت کی جانب سے ظاہر کئے گئے خدشات، اس کے اقدامات اور موجودہ صورتحال میں خاموشی اس معاملے پر حکومتی عزائم کو واضح کر رہی ہے، اگر حکومت ڈٹ جائے اور جیسے تیسے کر کے دو تہائی اکثریت بنا کر ججز کی ریٹائرمنٹ سے متعلق آئینی ترمیم کرنے میں کامیاب ہو بھی جائے تو عدالت میں چیلنج ہونے کی صورت میں حکومت کیلئے بڑی مشکلات ہیں کیونکہ چیف جسٹس آف پاکستان تنہا اس معاملے پر کوئی بنچ نہیں بنا سکتے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد یہ معاملہ تین رکنی کمیٹی نے دیکھنا ہے جس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں جو آنے والے وقت کے چیف جسٹس صاحبان ہیں۔
جہاں ایک جانب مخصوص نشستوں سے متعلق تحریری تفصیلی فیصلے کا انتظار ہے وہیں عدالتی فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواستیں بھی دائر ہو چکی ہیں جن کی سماعت بھی بہت دلچسپ صورتحال پیدا کرے گی، البتہ ایک چیز بڑی واضح ہے کہ ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمرمیں تبدیلی سے متعلق آئینی ترمیم کے حکومتی عزائم ملکی سیاست، پارلیمان اور عدل کے ایوانوں میں بھونچال لا سکتے ہیں اور اس معاملے میں ہار یا جیت حکومت کی بقا کا فیصلہ کرے گی۔