اسلام آباد: (دنیا نیوز) چیئرمین پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیراعظم عمران خان نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کے نام ایک اور خط لکھا ہے جس میں انہوں نے اپنے قتل کی مبینہ سازش اور بربریت کے واقعات کی جامع تحقیقات کی استدعا کی ہے۔
عمران خان نے خط میں لکھا کہ 90 سے زائد مقدمات کے باعث مسلسل درخواست کر رہا ہوں کہ بذریعہ ویڈیو لنک میرے مقدمات کی پیروی کی جائے، حکومت میری سلامتی سے متعلق مکمل غیر سنجیدہ اور سکیورٹی کی فراہمی سے گریزاں ہے۔
انہوں نے لکھا کہ وزیر آباد میں قاتلانہ حملے کا شکار ہو چکا ہوں، قاتلانہ حملے کے بعد عدالتی پیشیوں پر میری زندگی مسلسل خطرات میں ہے، 18 مارچ کی پیشی کے دوران پیش آنے والے واقعات کی روشنی میں میرے مؤقف کی حساسیت سمجھنے کی استدعا ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ اسلام آباد کے عدالتی کمپلیکس میں حاضری کے موقع پر تمام راستوں کو کنٹینرز لگا کر بلاک کیا گیا، پیشی کو سہل بنانے کے بجائے”عدم پیشی“ کے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، اظہارِ یکجہتی کیلئے آنے والے لوگوں کو اشتعال دلایا گیا، پولیس اور رینجرز نے کارکنان اور قائدین پر آنسو گیس، لاٹھیوں کا بے دریغ استعمال کیا۔
عمران خان نے خط میں الزام عائد کیا کہ عدالتی کمپلیکس کی چھت پر تعینات پولیس اہلکاروں نے نہتے لوگوں پر پتھر برسائے، پولیس کی وحشت و سنگ باری کی ویڈیوز موجود ہیں، عدالت کے راستے میں پولیس نے میرے ساتھ چلنے والے شہریوں کو بلااشتعال تشدد کا نشانہ بنایا، مجھے راستے میں ہی احساس ہوگیا کہ میری گرفتاری نہیں بلکہ قتل مقصود تھا۔
انہوں نے لکھا کہ ہمارے وکلاء کو مار پیٹ کر باہر نکال دیا گیا مگر کم و بیش 20 نامعلوم افراد کمپلیکس میں موجود رہے، ان لوگوں نے وردیاں پہن رکھی تھیں نہ ہی کوئی شناخت ظاہر کر رکھی تھی، یقینی طور پر انہیں میرا خون کرنے کیلئے وہاں کھڑا کیا گیا تھا مگر اللہ نے میری حفاظت کی۔
عمران خان نے کہا کہ اسلام آباد کے راستے میں تھا جب پولیس نے ہائیکورٹ کی حکم عدولی کرتے ہوئے میری رہائشگاہ پر دھاوا بولا، پولیس کے حملے کے وقت میری اہلیہ چند گھریلو ملازمین کے ہمراہ گھر میں اکیلی تھیں۔
سابق وزیراعظم نے لکھا کہ میری اہلیہ مکمل طور پر گھر کی چاردیواری تک محدود اور غیر سیاسی خاتون ہیں، رہائشگاہ کا دروازہ توڑنا اور گھر پر یوں دھاوا بولنا چادر و چاردیواری کے تقدس کی خلاف ورزی ہے، میری زندگی کو لاحق خطرات اور رہائش گاہ پر حملے کی روشنی میں ان واقعات کی جامع تحقیقات کی جائیں۔