سرینگر: (دنیا نیوز) سال 2020 میں بھی مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کا ظلم اور بربریت جاری رہی، اس برس 260 افراد کو شہید کیا گیا، 20 افراد نے دورانِ حراست جان دی، حریت قیادت مسلسل پابندی سلاسل ہے۔
سال پر سال گذرتے جا رہے ہیں، جنت نظیر وادی میں بھارت کے مظالم ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے، کہیں جعلی پولیس مقابلے ہیں تو کہیں نام نہاد سرچ آپریشن کئے جاتے ہیں۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سال 2020 میں قابض بھارتی فوج نے 260 کشمیریوں کو شہید کیا، اکثر نوجوانوں کو سرچ آپریشن کی آڑ میں گولیوں کا نشانہ بنایا۔ 20افراد نے دوران ِ حراست جان دی، غاصب فوج نے اس سال 750 سےزائد افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
بھارتی فوج کی طرف سے چلائے گئے پیلٹ گن کے چھروں سے 150 افراد زخمی ہوئے، 10 افراد کی ایک آنکھ کی بینائی چلی گئی، 22 افراد ایسے تھے جن کی ایک یا دونوں آنکھیں زخمی ہو گئیں۔
اس سال 28 سو افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سیاسی کارکنوں کے علاوہ عام لوگ بھی شامل تھے، 920 گھروں کو جان بوجھ کر جلا دیا گیا۔ بھارتی فوج کے مظالم سے 13خواتین بیوہ ہو گئیں، 29 بچے یتیم کر دیئے گئے، 58 خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔
کشمیری صحافیوں پر بھی بھارت کا جبر جاری رہا، کہیں انٹرنیٹ پر پابندی اور کہیں خبروں کو سینسر کیا جاتا رہا، کئی جرنلسٹ کوریج کے دوران زخمی کر دیئے گئے۔
کشمیری قیادت مسلسل نظر بند اور جیلوں میں قید رہی، بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی علیل اور مسلسل گھر میں نظر بند ہیں۔ اس سال حریت رہنما میرواعظ عمر فاروق بھی گھر میں قید رہے۔ حریت لیڈر یاسین ملک، آسیہ اندرابی، مسرت عالم بٹ، شبیر احمد شاہ دلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔
اس سال غاصب درندوں نے وادی میں متعدد سیب کے باغات اجاڑ دیے، بڈگام کے باغبانوں کے مطابق سیب کے ہزاروں درخت کاٹ دیے گئے جس سے سیکڑوں خاندانوں کا روزگار ختم ہو گیا۔
لاک ڈاؤن اور کرفیو کی وجہ سے ٹرانسپورٹ، صنعت، سیاحت اور زراعت بری طرح متاثر ہوئی، کشمیری ٹریڈرز کے مطابق کشمیری معیشت کو اربوں کا نقصان ہوا۔
کسی بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم کی رپورٹ کا بھارت پر کوئی اثر نہیں ہوا، بڑی طاقتیں بھی مسئلہ کشمیر کے حل سے جی چراتی رہیں۔