لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) افغانستان میں امن کے حوالے سے امریکہ طالبان مجوزہ معاہدے میں پاکستان کو حصہ دار بننے کی پیشکش کو افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار اس کی حکمت عملی اور معاہدے کی تشکیل کے حوالے سے اس کی خدمات کا بہت بڑا اعتراف ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ کے تمام مضر اثرات کا شکار ہونے کے باوجود اپنے ہمسایہ ملک افغانستان میں امن کے قیام کیلئے پرخلوص کوششیں کیں۔ اب دیکھنا پڑے گا آج دوحہ میں امریکہ طالبان معاہدے پر دستخط کے بعد اس کے اثرات افغانستان میں کیا ہوتے ہیں۔ کیا کابل انتظامیہ اور دیگر افغان گروپ، جماعتیں اس معاہدے کی بنیاد پر امن عمل کو آگے بڑھانے میں کیا کردا ر ادا کرتی ہیں اور افغانستان میں ہونے والی اس پیش رفت پر بین الاقوامی محاذ پر اسے کس طرح لیا جاتا ہے۔
جہاں تک پاکستان کے کردار کا سوال ہے تو تاریخ شاہد ہے افغانستان پر امریکی حملہ کے بعد سے یہاں پیدا شدہ صورتحال اور اس کے پاکستان پر پڑنے والے اثرات کے باوجود پاکستان کا شروع سے یہ موقف رہا کہ افغانستان کا مسئلہ طاقت اور قوت کے ذریعے نہیں بلکہ بھرپور سیاسی عمل اور ڈائیلاگ کے ذریعہ حل ہوگا۔ امریکا بہادر اس کے اتحادیوں اور نیٹو افواج نے یہاں اپنے تسلط کیلئے ممکنہ زور آزمائی کا ہر حربہ اختیار کیا مگر وہ اپنا تسلط قائم نہ کر سکے جبکہ ان کی بنائی ہوئی کٹھ پتلی حکومتیں بھی یہاں اپنے قدم نہ جما سکیں۔ صدر ٹرمپ نے برسراقتدار آنے کے بعدافغانستان کے حوالے سے تمام تر ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی اور الزام تراشی کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع کر دیا لیکن بعدازاں جب انہیں بتایا گیا کہ افغان مسئلہ پاکستان کی مدد معاونت کے بغیر ممکن نہیں اور اس کی طرف ہاتھ بڑھانا لازم ہے تو تب پاکستان پر اعتماد کا سلسلہ شروع ہوا۔
امریکہ اور طالبان کو ایک ساتھ بٹھانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ یہ پاکستان تھا جس نے کمال مہارت اور پیشہ وارانہ ڈپلومیسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں ایک ساتھ بٹھانے کی کوششوں کا آغاز کیا۔ بھارت اس کا شدید مخالف تھا کیونکہ وہ افغانستان میں امن کا خواہاں نہیں بلکہ اس سرزمین کو ہمسایہ ممالک میں دہشتگردی کیلئے استعمال کرتا آیا تھا۔ بالآخر وقت آ گیا آج دوحہ میں طویل مذاکراتی عمل کے نتیجہ میں معاہدے پر دستخط ہونے جا رہے ہیں، امن معاہدے میں پاکستان کو فریق بننے کی دعوت خارجہ محاذ پر اہم پیش رفت ہے۔ اشرف غنی انتظامیہ نے مذاکرات کو دل سے قبول کیا اور نہ ہی معاہدے کو وہ خوش آئند قرار دے رہے ہیں بلکہ ان کی جانب سے طالبان پر الزام تراشی کی روش جاری تھی اور ہے کیونکہ طالبان سے امریکی مذاکراتی عمل کے بعد جو فریق سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ کابل انتظامیہ ہے۔
معاہدے کے بعد اگلے مرحلہ میں خود طالبان کو بڑے دل کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور تمام گروپوں، جماعتوں کو ساتھ لینا ہوگا جبکہ کابل انتظامیہ کی ذمہ داری امریکہ کو لینی ہوگی کیونکہ اشرف غنی اور بھارت معاہدے کو ہضم نہیں کر پا رہے اور اسے سبوتاژ کرنا چاہیں گے۔ لگتا یوں بھی ہے افغانستان میں امن کے حوالے سے بڑے امریکی مقصد کے مقابلہ میں اب اشر ف غنی اور ان کی انتظامیہ کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی۔ مستقبل کی اصل طاقت افغانستان میں طالبان ہیں۔ پاکستان کا تمام قربانیوں، نقصانات اٹھانے کے بعد حصہ صرف یہ ہوگا کہ افغانستان میں امن قائم ہوگا یہاں سے دہشتگرد اب پاکستان اور دیگر علاقوں کا رخ نہیں کریں گے اور افغانستان میں پاکستان دوست حکومت قائم ہوگی۔ انہیں بھارت سے خبردار رہنا ہوگا جسے افغانستان میں پاکستان دوست حکومت اور خصوصاً طالبان کسی طور بھی ہضم نہیں ہوں گے۔ وقت کا دھارا بتا رہا ہے علاقائی صورتحال میں چھوٹا ملک ہونے کے باوجود پاکستان کی حیثیت و اہمیت بڑھی ہے اور بھارت جیسا ملک خود اندرونی عدم استحکام اور انتشار سے دوچار ہے۔