کابل: (دنیا نیوز) افغانستان میں 19 سال سے جاری خانہ جنگی کو ختم کرنے کے لیے امن معاہدے کے لیے امریکا اور افغان طالبان کی کوششیں جاری ہیں، اسی حوالے سے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے افغانستان کے صدر اشرف غنی سے ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے۔
افغان میڈیا کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ساتھ ساتھ چیف ایگزیکٹو عبد اللہ عبد اللہ کو بھی ٹیلیفون کیا ہے۔
افغان خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی وزیر خارجہ نے دونوں رہنماؤں کو امریکا طالبان مذاکرات کے حوالے سے آگاہ کیا۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے بتایا کہ مائیک پومیو نے مذاکرات کے حوالے سے اہم پیش رفت سے آگاہ کیا، امریکی وزیرخارجہ نے طالبان کی جانب سے دی گئی تجاویز کے بارے میں مطلع کیا۔
Today, I was pleased to receive a call from @SecPompeo, informing me of the notable progress made in the ongoing peace talks with the Taliban. The Secretary informed me about the Taliban’s proposal with regards to bringing a significant and enduring reduction in violence.
— Ashraf Ghani (@ashrafghani) February 11, 2020
This is a welcoming development and I am pleased that our principal position on peace thus far has begun to yield fruitful results. Our primary objective is to end the senseless bloodshed.
— Ashraf Ghani (@ashrafghani) February 11, 2020
دوسری طرف امریکی میڈیا نے حکام کے حوالے سے افغان امن ڈیل سے متعلق بڑا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے افغان امن ڈیل کی مشروط اجازت دے دی۔
امریکی میڈیا کے مطابق اگرطالبان تشددمیں کمی لانے کا وعدہ کریں تو امریکا ڈیل پر دستخط کرنے کیلئے تیارہے، امریکی اور افغان حکام کے مطابق ڈیل پر دستخط ہونے کے بعد امریکی فوج کا بتدریج انخلاعمل میں آئے گا۔
خبر رساں ادارے کے مطابق ڈیل پر دستخط کے بعد طالبان اورافغان رہنماؤں کے درمیان ملک کے مستقبل سے متعلق براہ راست مذاکرات ہوں گے، افغان حکام کے مطابق امریکی وزیرخارجہ نے افغان قیادت کو مشروط اجازت سے متعلق آگاہ کردیا ہے۔
یاد رہے کہ امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد امن مذاکرات اور معاہدوں کے لیے 2 فروری کو کابل پہنچے تھے جہاں انہوں نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی تھی۔
افغان صدارتی محل سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ امریکی نمائندے نے اشرف غنی کو بتایا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوئی مگر وہ طالبان سے تنازع کو کم کرنے کے حوالے سے اتفاق رائے پر پہنچ جائیں گے، تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس میں کتنا وقت لگے گا۔
بعدازاں 10 فروری کو زلمے خلیل زاد نے ملا برادر اور طالبان کے سیاسی امور کے نائب سربراہ سے قطر میں ملاقات کی تھی۔ اس حوالے سے افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا تھا کہ ‘ملا محمد فاضل، ملا خیراللہ خیرخوا اور مولوی امیر خان متقی سمیت طالبان کی دیگر سینئر قیادت ملاقات میں موجود تھی’۔
انہوں نے کہا تھا کہ امریکی نمائندے سے ملاقات کے دوران قطر کے وزیرخارجہ بھی موجود تھے جس میں امن عمل سمیت مستقبل میں لیے جانے والے اہم اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
واضح رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان تقریباً ایک سال سے جاری مذاکرات ستمبر 2019 میں اپنے حتمی مراحل میں داخل ہوگئے تھے تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کی جانب سے مبینہ تشدد کو جواز بناتے ہوئے اس عمل کو مردہ قرار دے دیا تھا۔
گزشتہ ماہ طالبان ذرائع کا کہنا تھا کہ انہوں نے 7 سے 10 روز کے مختصر سیز فائر کی پیشکش کی ہے تاکہ معاہدہ کیا جاسکے تاہم اس پیشکش کی تفصیلات کے حوالے سے دونوں جانب سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا۔
امریکا اور سی آئی اے کے تربیت یافتہ افغانستان کے خصوصی فورسز کی بمباری، جس میں کئی شہری بھی جاں بحق ہوئے، پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور چند افغان حکام کی جانب سے مسلسل تنقید کی جاتی رہی ہے جس کے نتیجے میں افغانستان کے انٹیلی جنس سربراہ کو بھی برطرف کیا گیا تھا۔
2018 کے بعد امریکی فضائی حملوں میں اضافے سے تنازع میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکی سینیٹرل کمانڈ کے اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں امریکی ایئر فورس نے 7 ہزار 423 بم افغانستان میں گرائے جبکہ 2018 میں 7 ہزار 362 بم گرائے گئے تھے۔
2017 میں امریکا نے جنگ زدہ علاقے میں 4 ہزار 361 جبکہ 2017 میں ایک ہزار 337 بم گرائے تھے۔