اسلام آبا: (تجزیہ: خاور گھمن) تحریک انصاف کی حکومت کو ڈیڑھ برس سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا لیکن شاید ہی کوئی ایسا ہفتہ گزرا ہو جس میں کسی نئے مسئلے نے سر نہ ا ٹھایا ہو۔ ہر مسئلہ ختم ہونے کے بعد لگتا ہے شاید یہ آخری ہو گا اور اس کے بعد حکومت یکسوئی کیساتھ عوامی مسائل کے حل کے لیے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائے گی اور وزیر اعظم کے وژن کے مطابق معاملات آگے بڑھیں گے، پھر اچانک حکومت میں شامل لوگ ’’آ بیل مجھے مار،، کے مصداق کوئی نیا بحران کھڑا کر دیتے ہیں اور پھر ہر طرف سے حکومتی نا اہلی کے چرچے شروع ہو جاتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر حکومتی ریفرنس کی سپریم جوڈیشل کونسل میں سماعت جاری تھی اور پھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر اب یہ کیس سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے سامنے زیرسماعت ہے۔ حکومتی ریفرنس کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خاندان کے پاس لندن میں جائیداد ہے جسے معزز جج صاحب نے اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔ دوران سماعت سابق اٹارنی جنرل انور منصور نے اپنے دلائل کے دوران کچھ قابل اعتراض کلمات کہے اور اس کا قدرتی طور پر ردعمل بھی سامنے آیا۔ حکومت کی جانب سے سابق اٹارنی جنرل کے بیان سے نہ صرف لا تعلقی کا اعلان کیاگیا بلکہ انور منصور سے استعفیٰ بھی طلب کیا گیا۔ انور منصور نے مؤقف اختیارکیاکہ استعفیٰ انہوں نے پاکستان بار کونسل کے مطالبے پر دیا لیکن وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے بیان داغ دیا کہ اٹارنی جنرل نے استعفیٰ دیا نہیں، لیا گیا ہے۔
ایک بحران میں حکومت نے درست اور بروقت فیصلے کیے لیکن اس کے باوجود نئی محاذ آرائی شروع ہو گئی۔ اطلاعات کے مطابق نئے اٹارنی جنرل خالد جاوید کی تعیناتی پر وفاقی وزارت قانون کو اعتماد میں ہی نہیں لیا گیا، یوں جیسے ہی نئے اٹارنی جنرل کی تقرری کی خبر بیرسٹر فروغ نسیم کے پاس پہنچی انہوں نے استفسار کیا، کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ رات کو ہی وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نئے اٹارنی جنرل خالد جاوید کے حوالے سے ٹویٹ بھی کر دیتی ہیں، اس کے باوجود اگلے دن جب وزارت قانون کے قریبی ذرائع سے نئے اٹارنی جنرل کے حوالے سے پوچھا جاتا ہے تو وہ فرماتے ہیں کہ ابھی تک ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی سمری تیار کی گئی ہے، کچھ نام زیر بحث ہیں جن پر وزیر اعظم سے مشاورت ہونا باقی ہے۔ یہ خبر ’’دنیا‘‘ ٹی وی پر چلنے کے بعد وزیر اعظم آفس سے ایک پریس ریلیز جاری کی جاتی ہے اور وزیر قانون فروغ نسیم کو خالد جاوید کی بطور اٹارنی جنرل تعیناتی کی سمری وزیر اعظم کو بھجوانے کے احکامات دئیے جاتے ہیں، فوری سمری تیار ہوتی ہے اور شام تک نئے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری ہو جاتا ہے۔
اصل کہانی اس کے بعد شروع ہوتی ہے جس کی گونج آج کل اسلام آباد کے حلقوں میں مسلسل سنائی دیتی ہے، وزیر قانون کی وضاحتوں کے بعد وزیر قانون اور اٹارنی کے اختلافات موضوع بحث ہیں۔ بطور اٹارنی جنرل خالد جاوید دو اہم کام کرتے ہیں۔ اول،سپریم کورٹ کے جج قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف دائر حکومتی ریفرنس میں معذرت کر کے کیس سے الگ ہو جاتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ چونکہ وہ دائر حکومتی ریفرنس میں حکومتی نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کرتے اس لیے بطور اٹارنی جنرل اس کیس میں حکومت کی معاونت نہیں کر سکتے۔ دوم، وزارت قانون کو ایک مفصل خط لکھتے ہیں اور اٹارنی جنرل آفس میں آسامیوں کے حوالے سے میڈیا میں جاری خبروں سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مستقبل میں اٹارنی جنرل آفس میں آسامیوں کے حوالے سے ان سے مشاورت کی جائے۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان آئین اور قانون کے مطابق ادارے کو خودمختار بنانے کی بات کرتے ہیں تاکہ اٹارنی جنرل آفس ریاست پاکستان کی قومی اور بین الااقوامی سطح پر قانونی معاملات میں احسن طریقے سے معاونت کر سکے۔
وزیر قانون فروغ نسیم نئے اٹارنی جنرل خالد جاوید کے خط کو ایک غیر ضروری عمل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ نئے اٹارنی جنرل وزارت قانون کے کام اور طریقہ کار سے نابلد ہیں۔ نئے اٹارنی جنرل کے آتے ہی اس طرح کی اسٹریٹ فائٹ کیا رنگ لائے گی، اس پر دو اہم وفاقی وزراء کی رائے جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے واضح طور پر کہا کہ وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کے درمیان اختلافات ہیں اور لگتا ہے کہ شاید دونوں مستقبل میں ایک ساتھ نہ چل سکیں۔ حکومت چلانے کے لیے وزارت قانون اور اٹارنی جنرل آفس کی مکمل ہم آہنگی لازم ہے ،کیونکہ حکومت نے تمام آئینی اور قانونی معاملات پر وزارت قانون کے ذریعے ہی اٹارنی جنرل کو ہدایات دینی ہوتی ہیں، لیکن دونوں اہم حکومتی شخصیات کے درمیان بداعتمادی اور مخاصمت کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ شاید مستقبل میں وزیر اعظم عمران خان کو ایک بار پھر اکھاڑ پچھاڑ کرنا پڑے گی اور قانونی ٹیم کی دو اہم شخصیات میں سے کسی ایک کو گھر جانا پڑے گا ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو عمران خان کے متعلق قائم اس تاثر کو مزید تقویت ملے گی کہ معاشی محاذہو یا قانونی، وہ بہتر ٹیم بنانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔
نئے اٹارنی جنرل کے والد پروفیسر این ڈی خان پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وزیر بھی رہے۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خود بھی بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں قانونی مشیر رہ چکے ہیں۔ اٹارنی جنرل کے اس پس منظر کو دیکھ کر وفاقی کابینہ میں ان کی حمایت موجودہے۔ ایسے میں وزیر قانون فروغ نسیم کی بات کی جائے تو ان کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے، یہ الگ بات ہے ان کی اپنی پارٹی کا کہنا ہے کہ فروغ نسیم ایم کیو ایم کے کوٹے پر وزیر قانون نہیں۔ اب حالات و واقعات کو سامنے رکھیں تو دو اہم سرکاری دفاتر، جن کا چولی دامن کا ساتھ ہے، ان کے درمیان مفاہمت کے بجائے رسہ کشی اور تناؤ کی صورتحال ہے اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دو تلواروں کا ایک ہی میان میں رہنا ممکن نظر نہیں آتا۔ اب یہ وزیر اعظم عمران خان کے لیے ایک اور کڑا امتحان ہے، دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس صورتحال کو کس طرح ہینڈل کرتے ہیں۔