لاہور: (دنیا نیوز) پنجاب حکومت کی جانب سے بسنت منانے کا اقدام لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا، صفدر شاہین پیرزادہ ایڈووکیٹ نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی۔
درخواستگزار نے موقف اختیار کیا کہ بسنت خونی کھیل کی شکل اختیار کر گیا تھا جس کی وجہ سے پابندی لگائی گئی تھی، حکومت عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے خونی کھیل کی اجازت دے رہی ہے، ڈور پھرنے کے واقعات سے بے شمار قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، عدالت حکومت کی جانب سے بسنت کی اجازت دینے کا اقدام کالعدم قرار دے۔
ادھر بسنت پر پابندی ختم کرنے کے حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر قانون کو لیگل نوٹس جاری کر دیا گیا، قانونی نوٹس شہری میاں خلیل حنیف نے اپنے وکیل مدثر چوہدری کی وساطت سے ارسال کیا۔ نوٹس کے متن میں کہا گیا کہ حکومت پنجاب 15 دنوں میں اپنا بیان واپس لے ورنہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا، بسنت ایک خونی کھیل ہے جس پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے پابندی لگائی، خونی کھیل میں کئی معصوم جانیں ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔
دوسری جانب پنجاب اسمبلی میں بھی بسنت منانے کے فیصلے کیخلاف قرار داد جمع کروادی گئی۔ مسلم لیگ ن کی رکن اسمبلی حنا پرویز کی جانب سے جمع کروائی گئی درخواست میں کہا گیا ہے بسنت منانے کا فیصلہ غیر دانشمندانہ ہے، سپریم کورٹ از خود نوٹس لے۔
بسنت منانے کے اعلان سے جاں بحق افراد کے ورثا کا غم تازہ بھی ہوگیا ہے۔ اعداوشمار کے مطابق گزشتہ 10 سال کے دوران 200 سے زائد افراد قاتل ڈور کا شکار ہوئے۔ 2004 میں 9 افراد بسنت کے دن گردن پر ڈور پھرنے سے جان کی بازی ہا ر گئے۔
2005 کو 19 شہری خونی کھیل کی بھینٹ چڑھ گئے، 2007 میں 10 افراد جاں بحق جبکہ 700 سے زائد زخمی ہوئے، جس کے بعد 2009 میں اس تہوار پر مکمل پابندی کے احکامات جاری کیے گئے۔
دھاتی ڈور کی زد میں آکر گردنیں کٹوانے والوں کے لواحقین حکومت کے اس فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، عام شہری بھی حکومت سے اس فیصلے پر نظر ثانی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پتنگ بازی کی وجہ سے ہلاکتوں میں لاہور پہلے، گوجرانوالہ دوسرے جبکہ راولپنڈی تیسرے نمبر پر ہے۔