لاہور: (روزنامہ دنیا) علاج کیلئے امداد کے انتظار میں مرنیوالوں میں علیشبا، محمد زین، زاہدالنسا، حمیدہ بی بی، کنیز جعفر اور دیگر شامل ہیں۔ رقم کی جس کو ضرورت تھی وہ تو قبر میں اتر گیا، سرکاری امداد سے پہلے موت آ گئی، لواحقین کی دنیا سے گفتگو
پاکستان بیت المال میں سابق حکومت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے نافذ کردہ ایک قانون کی وجہ سے کینسر اور دیگر بیماریوں میں مبتلا کئی درخواست گزار مریض مہینوں قبل امداد کا انتظار کرتے قبروں میں اتر گئے اور اب ان کی امدادی رقوم کے چیک گھر پہنچ گئے ہیں جبکہ دوسری طرف اس مد میں وفاقی حکومت کے اکاؤنٹ میں 5 ارب روپے پڑے ہیں۔
روزنامہ دنیا نے چاروں صوبوں کے بیت المال دفاتر کی سرکاری دستاویزات اور امداد کے انتظار میں موت کی وادی میں اترنے والوں کے بدنصیب لواحقین سے رابطوں اور پاکستان بیت المال کے اعلیٰ حکام سے بات چیت کے ذریعے جو معلومات اکٹھی کی ہیں ان میں کئی دردناک کہانیاں سامنے آئی ہیں۔
روزنامہ دنیا کی تحقیقات کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے قانون کے تحت بیت المال کے دفتر میں درخواست دینے کے بعد متعلقہ ہسپتال تک امدادی چیک پہنچنے کے درمیان مراحل 8 سے بڑھ کر 12 ہو گئے اور طریقہ کار بھی پیچیدہ ہو گیا۔
تحقیقات کے دوران امداد کے انتظار میں موت کی وادی میں اترنے والے لگ بھگ 2 درجن افراد کی فہرست حاصل کی ہے جن میں کینسر کی مریضہ لاہور کی 14 سالہ علیشبا بھی شامل ہے جس کا جناح ہسپتال میں یکم اگست 2018ء کو انتقال ہو گیا لیکن صدر دفتر بیت المال اسلام آباد سے اس کے لئے 90 ہزار روپے کا امدادی چیک نمبر 14-533801 موت کے 49 دن بعد 19 ستمبر کو جناح ہسپتال کو جاری کر دیا گیا، ستم ظریفی یہ ہے کہ چیک تاحال نہیں پہنچ سکا۔
علیشبا کے بدنصیب والد افتخار احمد کو امداد کی منظوری کی اطلاع بیٹی کی موت کے ڈھائی ماہ بعد اب ملی ہے۔ بعد از موت امداد کے حقدار ٹھہرنے والوں میں دل کے عارضہ میں مبتلا کراچی کا 19 سالہ طالب علم محمد زین قومی شناختی کارڈ نمبر 3-4103878-42101 بھی ہے جس نے اپنے علاج کے لئے مئی 2018 میں درخواست دی لیکن 16 جون کو عیدالفطر کے دن امداد کے انتظار میں جان کی بازی ہار گیا۔
بیت المال کے صدر دفتر اسلام آباد سے اس کی موت کے 17 روز بعد 3 جولائی کو 1 لاکھ 45 ہزار 350 روپے امداد دینے کی منظوری دی گئی، اس امدادی رقم کا چیک موت کے تقریباً 4 ماہ بعد اب گھر پہنچ گیا۔
روزنامہ دنیا کے رابطہ کرنے پر متوفی محمد زین کے والد اکبر حسین نے کہا کہ اب چیک کا کیا فائدہ، جس کو ضرورت تھی وہ تو قبر میں اتر گیا۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک کی 26 سالہ زاہدالنسا شناختی کارڈ نمبر 6-7385906-14202 بونیر کے کینسر ہسپتال میں 10 اگست 2018ء کو انتقال کر گئی لیکن اس کی موت کے 2 ماہ سے زائد عرصہ کے بعد بھی درخواست منظوری کی منازل طے نہیں کر سکی۔
متوفیہ کے شوہر بیت اللہ نے بتایا کہ علاج کے لئے ان کے خاندان کو قرض لینے کے علاوہ ایک چھوٹا پلاٹ بھی فروخت کرنا پڑا لیکن یہ پیسے ختم ہونے پر بیت المال میں درخواست دی جس کی منظوری کی اطلاع نہیں آئی اور وہ فوت ہو گئی۔
کراچی ہی میں کینسر کی 36 سالہ مریضہ حمیدہ بی بی 10 اگست کو امدادی چیک کا انتظارکرتے کرتے اگلے جہان سدھار گئی لیکن اس کی موت کے 19 دن بعد بیت المال کے صدر دفتر سے اس کی امداد کے لئے 29 اگست کو 2 لاکھ 90 ہزار روپے کی امداد کی منظوری دیدی گئی جس کا چیک چند روز قبل جناح پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل سنٹر پہنچ گیا جہاں وہ 3 ماہ قبل زیر علاج تھی۔
حمیدہ بی بی کے ٹیکسی ڈرائیور شوہر سلیم رضا نے گفتگو میں بتایا کہ گھر کا سب کچھ بک گیا لیکن بیت المال کی امداد کی اطلاع سے قبل موت جیت گئی۔
بعد ازموت امداد منظوری کی اطلاع پانیوالوں میں شیخوپورہ کی کنیز جعفر، کراچی کے 60 سالہ نواز خان کے علاوہ سید تقی رضا، سندھ کے ضلع مٹیاری کی شمائلہ میمن، کراچی کی خورشیدہ، نوشہرو فیروز کے کنڈرو خان، کراچی کے خلیل احمد، کراچی کی ہاجرہ، کراچی کے ودود خان، کراچی کی شہناز محمود، کراچی کے رحمان الدین، ضلع ننکانہ صاحب کے جمیل احمد، حجرہ شاہ مقیم کے شہباز احمد اور مظفر گڑھ کی مسرت شاہین بھی شامل ہیں۔
نواز شریف دورکے ایم ڈی بیرسٹرعابد وحید شیخ نے حکومت کے خاتمے سے چند روز قبل مبینہ طور پر وفاقی حکومت کے رولز اور بیت المال کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے 62 ویں اجلاس کے فیصلے کی دھجیاں اڑا کر محمد ظہیر، قاضی ظفر اقبال، سعید احمد قاضی، قاسم ظفر، فواد احمد، ملک محمد ارشد، سجاد اقبال، سلطان حامد ملک کو گریڈ 18 سے 19 میں ترقی دیدی، ان میں سے کسی بھی افسر نے گریڈ 19 کے لئے لازمی مڈ کیرئیر مینجمنٹ کورس (ایم سی ایم سی) نہیں کیا تھا۔
سابق ایم ڈی نے 45 اسسٹنٹ ڈائریکٹرز، 75 ڈسٹرکٹ آفیسرز کے علاوہ گریڈ 14 اور 15 کے 340 کے لگ بھگ ملازمین کو اپ گریڈ کر دیا حالانکہ پاکستان بیت المال کے قوانین میں اپ گریڈیشن کا وجود ہی نہیں ہے۔
امداد کے اجرا میں غیر معمولی تاخیر کی وجوہات جاننے کے لئے کابینہ ڈویژن اور بیت المال دفتر کے حکام سے رابطہ کیا تو ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وفاقی سیکرٹری خزانہ عارف خان کو امداد کے اجرا کا پرانا نظام بحال کرنے کے لئے 6 خطوط لکھے گئے لیکن انہوں نے اس کو ماننے سے انکار کر دیا۔