پریزنر رولز میں ترمیم: بڑے لوگوں کو جیل میں ایگزیکٹو کلاس ملے گی

Last Updated On 13 July,2018 12:34 pm

لاہور: (روزنامہ دنیا) ن لیگ کی حکومت نے حکومتی مدت ختم ہونے سے 1 ماہ قبل یعنی 19 اپریل 2018 کو ہی پاکستان پریزنر رولز 1978 میں کئی اہم ترامیم کر دی تھیں، جس کے مطابق جیلوں میں ایگزیکٹو کلاس کی سہولیات صرف امراء، بیوروکریٹس، سیاست دان اور دیگر اس طرح کے افراد کو دی جا سکیں گی، جس پر اب عملدر آمد کرتے ہوئے نوازشریف، مریم نواز سمیت کئی اعلیٰ بیوروکریٹس کو نئے قانون کے مطابق سہولیات دی جاسکتی ہیں۔

محکمہ داخلہ پنجاب حکام کے مطابق کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو بیٹر کلاس یعنی ایگزیکٹو کلاس کی سہولیات فراہم کر دی گئیں ہیں، محکمہ جیل خانہ جات حکام کی جانب سے اس حوالے سے رپورٹ بھی محکمہ داخلہ پنجاب کو جمع کروا دی ہے، اگر دیکھا جائے تو 19 اپریل 2018 کو پاکستان پریزنر رولز 1978 میں جو ترامیم کی گئیں تھیں ان کا مقصد بظاہر جیل میں چند مجرموں کو بہتر سہولیات دینا تھا، جس وقت یہ منظوری دی گئی اس وقت نوازشریف، مریم نواز، کیپٹن صفدر، حسن نواز، حسین نواز سمیت کئی ن لیگی رہنمائوں اور چند منظور نظر افسروں کے خلاف نیب میں کیسز چل رہے تھے اور یہ نظر آرہا تھا کہ کئی سیاسی رہنمائوں سمیت دیگر بیوروکریٹس کو سزائیں ہو سکتی ہیں اور ان کو جیلوں میں بند کیا جا سکتا ہے، اور اس وقت افسروں کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کے گرد بھی گھیرا تنگ ہوتا نظر آرہا تھا۔

اس وقت شہبازشریف کے خصوصی احکامات پر پنجاب کابینہ کے اجلاس بلائے بغیر سرکولیشن کے ذریعے ان ترامیم کی منظوری لے لی گئی تھی۔ نئے قانون کے مطابق صرف بیورو کریٹ، سیاست دان جن میں اراکین اسمبلی اور ایسے افراد جو سالانہ 6 لاکھ روپے یا اس سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں وہ ایگزیکٹو کلاس کی سہولت حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان پریزنر رولز 1978 میں جو ترامیم کی گئیں ہیں انکے مطابق بیٹر کلاس سہولیات کے معیار کی فراہمی کے لئے قیدی عادی مجرم نہ ہو یا دو سے زائد مرتبہ سزا یافتہ نہ ہو، آرمڈ فورسز اور سول شعبہ میں کمیشنڈ یا گزیٹڈ آفیسر ہو، ممبر پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی ہو یا سالانہ 6 لاکھ ٹیکس ادا کرتا ہو۔

رولز 242 کی شق ٹو جس میں تبدیلی کی گئی ہے اس کے مطابق سیکرٹری داخلہ پنجاب کو یہ اختیار دیدیاگیا ہے کہ وہ اجازت دے سکتا ہے کہ کسی قیدی کو بیٹر کلاس کی سہولت کی منظوری دینی ہے یا نہیں اور اگر منظوری دیتا ہے تو چیف سیکرٹری اس کے خلاف بھی کوئی فیصلہ کر سکتا ہے اور یہ کلاس لینے کے لئے قیدی کی جانب سے ڈپٹی کمشنر کو درخواست دی جائیگی اور آئی جی جیل خانہ جات کے ذریعے سیکرٹری داخلہ کو درخواست بھجوائیں گے۔
درخواست پر 48گھنٹے کے اندر اندر متعلقہ افسروں کو بیٹر کلاس سہولیات دینے یا نہ دینے سے متعلق فیصلہ کیا جائیگا، انچار ج آفیسر قید کے ضوابط کی خلاف ورزی کے شواہد پر بیٹر کلاس کے احکامات منسوخ کرنے کا مجاز بھی ہے، بیٹر کلاس یعنی ایگزیکٹو کلاس جس قیدی کو دی جائیگی وہ قیدی اپنی مرضی کا لباس بھی پہن سکتا ہے، اپنے بستر کا اہتمام کر سکتا ہے، 24انچ میز، کرسی، 21انچ ٹی وی سکرین، ریڈیو، اخبارات سمیت دیگر اشیاء سے اپنے اخراجات پر استفادہ کر سکتا ہے۔

نیب قانون کے تحت جس میں لوگ اربوں روپے کرپشن پر پکڑے جاتے ہیں ان کو یہ سہولت دی جاسکتی ہے، رولز 225کے مطابق مجرم یا زیر مقدمہ قیدی کو تین درجہ بندیوں میں تقسیم کیا گیا ہے، یعنی بیٹر کلاس جس میں ایگزیکٹو کلاس، آرڈینیری کلاس اور پولیٹیکل کلاس شامل ہے، جبکہ پہلے اس طرح کی کلاس شامل نہ تھی، صرف سی کلاس اور سپریئر کلاس ہی شامل تھیں۔ ترمیم کے مطابق سی کلاس کو آرڈینیری کلاس میں تبدیل کیا گیا ہے ، جبکہ بی اور سینئر کلاس کو بیٹر کلاس یعنی ایگزیکٹو کلاس میں تبدیل کیا گیا ہے ۔ رولز میں بی اور سپرئیر کلاس کے لفظ کی جگہ پر بیٹر کلاس کا لفظ استعمال کیا جائیگا۔

اس طرح اب اگر نوازشریف، مریم نواز کی جانب سے جیل میں جانے کے بعد درخواست دی جاتی ہے تو انہیں متعلقہ انتظامیہ درخواست کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ ان کو ایگزیکٹو کلاس دینی ہے۔ اس وقت اگر دیکھا جائے تو شریف خاندا ن کے قریب رہنے والے افسر جن میں احد خان چیمہ، فواد حسن فواد، علی جان خان، نجم شاہ، کیپٹن (ر)محمد عثمان سمیت بڑی تعداد میں افسروں کے کیسز نیب میں چل رہے ہیں، اسی طرح حسن نواز، حسین نواز، اسحاق ڈار، شہبازشریف، شہبازشریف کے داماد علی عمران یوسف، خواجہ سعد رفیق سمیت کئی سینئر سیاستدانوں اور افسران کے خلاف بھی نیب میں تحقیقات جاری ہیں۔