اسلام آباد: (دنیا نیوز) شیخ رشید میدان سیاست کے پرانے شہسوار ہیں، انہوں نے عام کارکن سے کامیاب سیاسی رہنما کا سفر تیزی سے مکمل کیا۔ ناکامی کا کم کم ہی سامنا کرنا پڑا۔ سیاست کا انداز، عوامی شعلہ بیان مقرر اور میڈیا شوز میں نت نئی پھلجڑیاں چھوڑتے ہیں۔
فرزند راولپنڈی اب کہلاتے ہیں پنڈی بوائے۔ انداز کبھی دیسی تو کبھی کاؤ بوائے۔ سر پر ہیٹ ہاتھ میں سگار، کبھی گاڑی تو کبھی موٹر سائیکل پر سوار، رہائشگاہ لال حویلی تو شخصیت ست رنگی، سیاسی فقرہ بازی کے ماہر، میڈیا کے پسندیدہ، شیخ رشید ہیں قومی سیاست کے سدا بہار عوامی کردار۔
شیخ رشید کی پارلیمانی سیاست میں انٹری دبنگ تھی۔ 1985ء میں حلقہ این اے 38 سے الیکشن لڑا اور اس وقت کے میئر راولپنڈی شیخ غلام حسین کو شکست دے کر سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ 1988ء اور 1990ء میں آئی جے آئی کے ٹکٹ پر میدان مارا۔ 1993ء اور 1997ء میں شیر کے نشان پر کامیابی کا جھنڈا گاڑا۔
نواز شریف کے دونوں ادوار میں ثقافت اور اطلاعات کے وزیر بنے۔ ایک مشہور اداکارہ سے ان کے تعلقات کے چرچے رہے۔ شہر میں لڑکیوں کے درجنوں سکول کالج بنوائے اور راولپنڈی کے سر سید کہلائے۔
2002ء کے الیکشن میں شیخ رشید کو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ نہ ملا تو وہ این اے 55 اور 56 سے بطور آزاد امیدوار میدان میں اترے اور دونوں حلقوں سے کامیاب ہوئے۔ الیکشن کے بعد ق لیگ میں شامل ہو گئے، پہلے اطلاعات پھر ریلوے کے وزیر رہے۔ 2008ء میں پہلی بار شیخ رشید کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا جب این اے 55 سے جاوید ہاشمی اور این اے 56 سے حنیف عباسی نے انہیں ہرا دیا۔
انہوں نے 2010ء میں این اے 55 کے ضمنی الیکشن میں قسمت آزمائی، مگر ن لیگ کے شکیل اعوان نے انہیں مات دیدی۔ 2013ء کے الیکشن میں شیخ رشید نے پی ٹی آئی سے مل کر الیکشن لڑا اور شکیل اعوان کو ہرا کر حساب برابر کر دیا۔
الیکشن 2018ء میں شیخ رشید این اے 60 اور 62 سے امیدوار ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے نے ان کی سیاست کو نئی توانائی دیدی ہے۔ راولپنڈی کے عوام انہیں ایک بار پھر پارلیمنٹ میں پہنچاتے ہیں یا نہیں؟ یہ 25 جولائی کو سامنے آئے گا۔