لاہور: (روزنامہ دنیا) دو نہیں ایک پاکستان اور ہم سب کا نیا پاکستان کے نعرہ پر عمران خان کی جانب سے 29 اپریل کو مینار پاکستان پر بڑا عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے جس کیلئے پارٹی نے دن رات ایک کر رکھا ہے، دیکھنا پڑے گا کہ کیا عوامی اجتماع کے مقاصد پورے ہو سکیں گے اجتماع کی کامیابی کے امکانات کتنے ہیں اور آنے والے انتخابات کے حوالے سے مذکورہ عوامی اجتماع کا کردار کیا ہو گا۔
حقائق یہ ہیں کہ مذکورہ عوامی اجتماع کی کامیابی کیلئے تحریک انصاف نے ممکنہ وسائل جھونکنے کے ساتھ اس کی تیاریوں کیلئے دن رات ایک کر رکھا ہے جس طرح 30 اکتوبر 2011 کو مینار پاکستان پر جلسہ کو تحریک انصاف کا سیاسی ٹیک آف قرار دیا جاتا ہے اس طرح سے 29 اپریل 2018 کے جلسہ کو انتخابی میدان میں انتخابی ٹیک آف کیلئے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس حوالہ سے اصل ٹارگٹ لاہور کو بنا رکھا ہے جبکہ دوسری ترجیح میں سنٹرل پنجاب کے اضلاع اور پھر شہری ترجیح میں ملک بھر سے پارٹی کے عہدیداران ،کارکن اور ٹکٹ ہولڈرز کو خصوصی طور پر پارٹی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ کیونکہ اس جلسے کی پلاننگ میں یہ بات خصوصی طور پر مدنظر رکھی گئی ہے کہ پارٹی کے اندر تمام طبقات کو نہ صرف فعال کیا جائے بلکہ پارٹی کے اندر موثر رابطہ اور افہام و تفہیم کی فضا بنا کر پارٹی کے اندر مختلف گروپوں کے تاثر کو ختم کیا جائے۔
اس اجتماع کی اصل اہمیت تو عوام کو اپنے سیاسی نظریے اور بدلتے ہوئے حالات میں ایک قابل قبول اور مثالی انتخابی منشور دینا ہے کیونکہ جب 2011ء میں اسی مینار پاکستان کے سائے تلے ان کی قیادت میں قوم کو ‘‘سٹیٹس کو’’ کے خلاف ایک توانا آواز محسوس ہوئی تھی اور مسائل سے گھری قوم کو عمران خان کی شخصیت میں امید کی آخری کرن نظر آئی تھی اور ملک کے نوجوان طبقات دیوانہ وار عمران خان کی کرشماتی شخصیت اور سیاست کے سحر میں ایک نئے پاکستان کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے مگر عمران خان کی شخصیت اپنے نوجوانوں کو پارٹی کے اندر ابھرتی قیادت بنانے میں ناکام رہی، ملکی سیاست کے روایتی انداز نے انہیں خود سیاسی معاملات میں ایسا الجھائے رکھا کہ وہ محض الزامات اور مدمقابل سیاسی قوتوں کو الزامات کے ڈونگرے برسا کر پاکستانی سیاست کے ‘‘مک مکا’’، سیاسی میچ فکسر، کرپشن کے رسیا اور ہماری آنے والی نسلوں کا چور بنا کر پیش کرتے رہے۔
خود 2013 کے انتخابی مینڈیٹ میں انہیں ایک صوبہ کی حکومت عوام نے سونپی تھی اور وفاق میں انہیں ایک موثر اپوزیشن کا کردار ملا مگر معاملہ دھاندلی اور پاناما الزامات تک محدود رہا۔ عمران خان کی شخصیت کا سحر آج بھی قائم ہے اور آئندہ انتخابات میں ن لیگ کے سیاسی گڑھ میں اس کا اصل حریف عمران خان اور تبدیلی کے نعرے لگانے والے ہونگے۔ آئندہ عام انتخابات کیلئے اس مرتبہ بھی لاہور ہی سیاسی ماحول کو ایک نیا رخ دے گا اس کے فوری بعد تحریک انصاف 3 مئی کو اپنے پارلیمانی بورڈ کے ذریعے پارٹی انتخابی ٹکٹ دے گی۔ لہذا الیکشن میں ٹکٹ کے خواہشمند حضرات اپنی سیاسی بساط اور اوقات سے بڑھ کر اپنا حصہ اس جلسے میں ڈالیں گے عام طور پر تاثر یہی ہے کہ بہت بڑا جلسہ ہو گا اور تحریک انصاف اس جلسے کے بعد ایک ‘‘سیاسی مومینٹم’’ پکڑے گی۔
اس وقت پنجاب کے سیاسی محاذ پر تحریک انصاف کو ایک سازگار ماحول میسر ہے۔ اس کی بڑی حریف جماعت پاناما کرپشن کے سلسلے میں روزانہ ملک کے عدالتی اور احتسابی نظام سے ٹکراؤ کی کیفیت میں ہے۔ پوری ن لیگ انتخابی سیاست سے زیادہ الزامات کے دفاع اور اپنی حکومتی پرفارمنس کو پیش کرنے میں بظاہر کامیاب نہیں ہو پا رہی اور اس کی اندرونی سیاسی صورتحال بھی کوئی قابل رشک نہیں۔ آئے دن جنوبی پنجاب کے کچھ بڑے سیاسی گھرانے اسے چھوڑ رہے ہیں اور سب سے بڑا اشارہ اسٹیبلشمنٹ سے ن لیگ کی لڑائی اور تحریک انصاف کی قربت کا منظرنامہ ہے جس سے اس ملک کے غیر نظریاتی طبقات تحریک انصاف کو اقتدار کے ایوانوں میں جاتا دیکھ رہے ہیں۔ مگر تحریک انصاف کیلئے طاقتور اسٹیبلشمنٹ سے یارانہ اور نوازشریف کی مزاحمتی مہم اس گٹھ جوڑ کو عوام میں بے نقاب کر رہی ہے۔ مگر یہ سارا سیاسی منظر تحریک انصاف کو انتخابی میدان میں ہر دن ایک بڑی پارٹی کے طور پر سامنے لا رہا ہے اب اس جماعت کی آئندہ کی پانچ سالہ سیاست کا فیصلہ 29 اپریل کو مینار پاکستان کے سائے تلے ہو گا۔