لاہور( روزنامہ دنیا ) چھوٹے مگر پرہجوم کورٹ روم میں بیٹھے نواز شریف غیر جمہوری قوتوں کیخلاف مزاحمت کے لئے پرعزم ہیں جوکہ ان کے مطابق انہیں دیوار سے لگانا چاہتی ہیں۔ عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا 'ان کے خلاف کرپشن کے تمام مقدمات جھوٹے اور من گھڑت ہیں۔ جمہوریت میں حتمی فیصلہ عوام کا ہوتا ہے، مجھے یقین ہے کہ عوام ایک مرتبہ پھر ووٹ کے ذریعے مجھے اقتدار میں لائینگے'۔
نواز شریف کی سیاسی جانشین مریم نواز احتساب عدالت میں ان کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ 68 سالہ نواز شریف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزامات میں اپنی بیٹی اور داماد کیپٹن (ر)صفدر کے ساتھ پچاس سے زائد مرتبہ عدالت میں پیش ہو چکے ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں سے پاکستان کے حکمران شریف خاندان کیلئے کرپشن کے الزامات ایک بڑا دھچکا ہیں۔ ان کے خاندان کے زوال کی خبریں شہ سرخیوں میں ہیں جوکہ پارٹی مسلم لیگ ن کا کنٹرول حاصل کرنے کیلئے مختلف گروپوں کے مابین مخاصمت کا باعث بنی ہوئی ہے۔ ان کے زوال کی کہانی مئی 2016 میں عالمی میڈیا پر پاناما لیکس سے شروع ہوئی جس میں نواز شریف اور ان کے بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز پر خفیہ آف شور کمپنیاں اور بیرون ملک اثاثے بنانے کے الزامات لگائے گئے۔
پاکستان کی اپوزیشن پارٹیوں خصوصاًعمران خان کے تحریک انصاف نے شریف خاندان سے اپنی خفیہ دولت منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا اور سپریم کورٹ میں پاناما پیپرز کی تحقیقات کرانے کیلئے درخواست دائر کر دی۔ 9 ماہ کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے گزشتہ سال 28 جولائی کو تاریخی فیصلہ سنایا، نواز شریف کو نااہل قرار دیا اور نیب کو ہدایت کی کہ شریف خاندان پر عائد الزامات کی وہ تحقیقات کرے ۔ 2013 کے انتخابات میں نواز شریف کی ن لیگ مقبول ترین جماعت ثابت ہوئی، اس نے ایک کروڑ 48 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کئے۔ نواز شریف کو قیادت سے برطرف کرنے کے بعد سپریم کورٹ نے ان کی پارلیمنٹ کی رکنیت پر تاحیات پابندی لگا دی۔ چند مہینوں کے دوران نواز شریف اور ان کے خاندان نے قیادت چھوٹے بھائی شہباز شریف کے حوالے کر کے پارٹی کا بحران ٹالنے کی کوشش کی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار طاہر ملک کے مطابق دونوں کی پارٹی پر گرفت تیزی سے ختم ہو رہی ہے ،ارکان پارلیمنٹ پارٹی چھوڑ رہے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2018 کے الیکشن سے قبل پارٹی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہے ۔ انہوں نے پیش گوئی کی کہ شہباز شریف پارٹی قائم رکھنے میں ناکام رہیں گے کیونکہ پارٹی کے اہم امیدواروں کو شریف خاندان کا کوئی سیاسی مستقبل دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ انہوں نے کہا پاکستان میں سیاستدان ہواؤں کا رخ دیکھ کر چلتے ہیں اس وقت ہوائیں شریف خاندان کے خلاف چل رہی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق سیاسی بحران کے علاوہ شریف خاندان کے درمیان پارٹی کا کنٹرول حاصل کرنے کی کشمکش بھی جاری ہے ، نواز شریف اپنی بیٹی مریم نواز کو جانشین بنانا چاہتے ہیں جبکہ شہباز شریف اپنے بیٹے حمزہ شہباز کوآگے لانے کے خواہاں ہیں۔
مریم نواز گزشتہ اگست میں منظر عام پر آئیں جب انہوں نے ضمنی انتخاب میں اپنی والدہ کلثوم نواز کی انتخابی مہم چلائی، جوکہ ان دنوں لندن میں کینسر کے باعث زیر علاج ہیں۔ لاہور کے حلقے کی یہ نشست نواز شریف کی نااہلی کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق شہباز شریف اور ان کے بیٹے مریم نواز کی بڑھتی مقبولیت سے نالاں تھے اس لئے دونوں نے ضمنی انتخاب کے دوران حلقے کا دورہ کرنے سے انکار کر دیا۔ مریم نواز نے والد کی انتخابی مہم اپنے دم پر چلائی اور کامیابی حاصل کرکے اپنی اہلیت ثابت کی۔ اس کامیابی نے ان کے اعتماد میں اضافہ کیا جس سے ان کے چچا اور کزن کے پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنے کے منصوبے پر اوس پڑ گئی۔ اس سے شریف خاندان میں تقسیم کے افواہوں کو خوب ہوا ملی۔ سیاسی تجزیہ کار رسول بخش رئیس کے مطابق شریف خاندان میں پارٹی کی قیادت حاصل کرنے کیلئے کشمکش سب پر عیاں ہے جس سے ان کا سیاسی مستقبل متاثر ہو رہا ہے ۔ حد سے زیادہ پرعزم مریم نواز اپنے بیٹے جنید صفدر کو آئندہ الیکشن میں سیاسی میدان میں لانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں تاکہ پارٹی پر ان کی گرفت برقرار رہ سکے ۔ مبصرین کے مطابق مریم نواز کی اس کوشش کی وجہ سے شہباز شریف کیمپ ان سے مزید دور ہو رہا ہے ۔ نواز شریف کے قریبی معاون سینیٹر مشاہد اللہ خان نے شریف فیملی سے متعلق منفی افواہیں مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بدخواہوں کو ناکامی ہی ملے گی ، اس قسم کے پروپیگنڈے کا شریف خاندان پرکوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ماضی میں بھی بدخواہ ناکام ہوئے ، اس مرتبہ بھی وہ مایوس ہونگے۔