لاہور: (ویب ڈیسک) سوشل میڈیا پر ان دنوں ایک دستاویز شیئر کی جا رہی ہے جس میں یہ بے بنیاد دعوی کیا گیا ہے کہ امریکی حکومت کو کوویڈ 19 وبا کے بارے میں پہلے سے ہی علم تھا۔
یہ دعوٰی "خفیہ دستاویزات سے انکشاف ہوا کہ موڈرنا کمپنی نے کورونا ویکسین نارتھ کیرولینا یونیورسٹی کو وبا پھیلنے سے ہفتوں پہلے بھجوائی" کے عنوان پر مشتمل مضامین کے ذریعے پھیلنے کا تاثر ملا ہے۔ مضمون میں مواد بھجوانے کا معاہدہ بھی شامل ہے جو نیشنل انسٹیٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشس ڈیزیز ، موڈرنا کمپنی اور یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا کے مابین چیپل ہل میں طے پایا جن پر تینوں اداروں کے حکام نے 12 سے 17 دسمبر 2019 کے دوران دستخط کئے۔
عالمی ادارہ صحت اور سینٹرز فور ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کی جانب سے کہا گیا کہ چین کے صوبے ووہان میں مرض پھیلنے کا آغاز 12 دسمبر 2019 کو ہوا جبکہ عالمی ادارے کے مقامی دفتر کو 31 دسمبر 2019 کو نمونیہ وبا پھیلنے کا بتایا گیا۔ چینی حکام کو اس نئے وائرس سے متعلق 7 جنوری 2020 کو علم ہوا۔تاہم آن لائن شیئر کی گئی مذکورہ دستاویز میں مرز-کوو نامی کورونا وائرس مرکزی نقطہ تھا جو 2012 میں مڈل ایسٹ رسپائریٹری سنڈروم کے سعودی عرب میں پھیلنے کا سبب بنا تھا۔ سارس-کوو-2 نامی وائرس کا اس دستاویز میں کوئی ذکر نہیں تھا جس کے ذریعے اصل میں کوویڈ19 وبا پھیلی۔
یہ دعوی لفظ کورونا وائرس کے کوویڈ 19 سے تعلق کی غلط تشریح کرتا ہے، کورونا وائرس کی کئی اقسام ہیں جن کی پہلی قسم 1960 میں سامنے آئی تھی۔ امریکی ادارے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف الرجی اور انفیکشس ڈیزیز نے اس حوالے سے تاحال اپنا موقف نہیں دیا۔ لہذا ثابت ہوا کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ کوویڈ 19 ویکسین وبا پھیلنے سے پہلے تیاری کے مراحل میں تھی۔