جینیوا: (ویب ڈیسک ) اقوام متحدہ کے تجارتی اور ترقیاتی ادارے یو این سی ٹی اے ڈی نے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے نتیجہ میں ہونے والی بڑے پیمانے پر تباہی اور غزہ کی معیشت کی بحالی کے لئےاربوں ڈالر اور کئی عشرے درکار ہوں گے۔
خبررساں ادارے کے مطابق یو این سی ٹی اے ڈی کی طرف سےجاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی جنگ کے نتیجے میں اس کی معیشت کو غیرمعمولی سطح پر تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
رپورٹ میں جنگ کے سماجی و اقتصادی اثرات کا ابتدائی جائزہ لیا گیا ہے جس کے مطابق جنگ سے غزہ کے جی ڈی پی کو پہنچنے والے نقصان، بحالی کی ٹائم لائنز اور غربت اور گھریلو اخراجات پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا گیاہے۔
ایک اندازے کے مطابق غزہ کے سالانہ جی ڈی پی میں گزشتہ سال 655 ملین ڈالر کی کمی ہوئی، جو کہ مجموعی جی ڈی پی کے 24 فیصد کے برابر ہے، اسرائیل کی طرف سے مسلسل محاصرے کی وجہ سے 2022 تک غزہ کی معیشت کی اوسط شرح نمو محض 0.4 فیصد رہی ہے اور 2023 کی پہلی تین سہ ماہیوں میں معیشت پہلے ہی 4.5 فیصد تک سکڑ چکی تھی ۔
اسرائیل کے فوجی آپریشن کے باعث غزہ کے جی ڈی پی میں سالانہ بنیاد پر 24 فیصد کمی اور فی کس جی ڈی پی میں 26.1 فیصد کی کمی ہوئی ہے ۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگر فوری طور جنگ روک دی جائے اور تعمیر نو کا عمل بھی فوری شروع کر دیا جائے اور 2007-2022 کے دور کا ترقی کا رجحان برقرار ر ہے ، تو بھی 2022 کی جی ڈی پی کی سطح کو 2092 تک بحال ہو سکے گی تاہم فی کس جی ڈی پی اور سماجی اقتصادی حالات میں کمی ہی آئے گی۔
تاہم انتہائی پر امید منظر نامے کے ساتھ جو یہ ہے کہ جی ڈی پی 10 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ سکتی ہے، یہ 2035 تک غزہ کی فی کس جی ڈی پی کو صرف 2006 کی ناکہ بندی سے پہلے کی سطح تک لے جاسکے گا۔
اسرائیلی محاصرے سے قبل بھی غزہ کی پٹی میں حالات پہلے ہی سنگین تھے، جو کرہ ارض پر سب سے زیادہ گنجان آباد مقامات میں سے ایک ہے، جہاں 22 لاکھ سے زیادہ فلسطینی 365 مربع کلومیٹر تک رہائش پذیر ہیں ، یہاں کے 80 فیصد مکینوں کا انحصار بین الاقوامی امداد پر تھا، دو تہائی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی تھی اور جنگ سے پہلے بے روزگاری کی شرح 45 فیصد تھی، لوگوں کو صاف پانی، بجلی اور سیوریج کے مناسب نظام تک مناسب رسائی نہیں تھی۔
مزید برآں، اسرائیل کی سابق فوجی کارروائیوں سے ہونے والے زیادہ تر نقصان کا ازالہ بھی نہیں کیا گیا تھا۔
یو این سی ٹی اے ڈی کے مطابق غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی آپریشن نے غزہ کی 85 فیصد آبادی کو بے گھر کر دیا ہے، اقتصادی سرگرمیاں روک دی ہیں اور غربت اور بے روزگاری میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
اس صورتحال میں علاقے میں جنگ سے پہلے کے سماجی اقتصادی حالات کو بحال کرنے میں کئی دہائیاں لگیں گی اور اس کے لئے بھاری مقدار میں غیر ملکی امداد کی ضرورت ہو گی۔
رپورٹ کے مطابق غزہ میں اس وقت تقریباً 80 فیصد افرادی قوت بے روزگار ہے، 37,379 عمارتیں، جو غزہ کے کل عمارتوں کے 18 فیصد کے برابر ہیں ، جن کو نقصان پہنچا یا وہ تبا ہ ہو چکی ہیں۔ غزہ جس کی نصف آبادی بچوں پر مشتمل ہے، اب تقریباً ناقابل رہائش ہے اور ایسے لوگوں کے پاس آمدنی کے مناسب ذرائع، پانی، صفائی، صحت یا تعلیم تک رسائی نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی نے خبردار کیا کہ معاشی بحالی کے نئے مرحلے کا مطلب محض تنازعات سے پہلے کی حالت میں واپسی نہیں ہو سکتا اور تباہی اور جزوی تعمیر نو کے شیطانی چکر کو توڑا جانا چاہیے۔
رپورٹ میں وسیع پیمانے پر تباہی کو روکنے کی کوششوں میں فلسطینی حکومت کو فوری مدد فراہم کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا، اس بات کا ذکر کیا گیا کہ غیر ملکی امداد 2008 میں کل 2 بلین ڈالر یا جی ڈی پی کے 27 فیصد سے کم ہو کر 2022 میں 550 ملین ڈالر رہ گئی جو فلسطین کے جی ڈی پی کے تین فیصد سے بھی کم ہے۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی نے مزید اس بات پر زور دیا کہ غزہ کے بحران کے حل کے لیے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان دو ریاستی حل کے حصول کی جانب اہم اقدامات کے طور پر فوجی آپریشن اور ناکہ بندی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔