لاہور: (روزنامہ دنیا) اشرف غنی حکومت کے خاتمے کے بعد طالبان نے پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا ہے، باقی دنیا کی طرح ظاہر ہے اس وقت مسلم ممالک کی نگاہیں بھی افغانستان کی صورت حال پر ہیں، چند مسلم ممالک تو اس میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ کچھ نے اس صورت حال پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔
او آئی سی نے ایک بیان جاری کر کے افغانستان کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وسط ایشیا کے ہمسائے ازبکستان ، تاجکستان اور ترکمانستان، افغانستان کے حالات سے متاثر ہوتے رہے ہیں۔ اس تنازع کی وجہ سے انکے ہاں مسلسل پناہ گزین آتے رہے ہیں۔ افغانستان میں بڑھتی مشکلات کے درمیان تاجکستان اور ازبکستان نے باہمی اتحاد کو بھی بڑھایا ہے۔ دونوں ممالک کی افواج مشترکہ فوجی مشقیں کرتی رہی ہیں۔ وہیں ترکمانستان نے طالبان سے تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔
ترکی نے دو روز قبل جاری ایک بیان میں کہا تھا کہ کابل ایئر پورٹ کا استعمال میں رہنا فائدہ مند ہوگا۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا تھا ہماری نظر میں طالبان کا رویہ ویسا نہیں ہے جیسا ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ پاکستانی وزیراعظم طالبان اور ترکی کو قریب لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان میں 30 لاکھ سے زائد افغان پناہ گزین بھی رہتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کو طالبان کے لیے سب سے اہم ہمسایہ ملک بھی سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان واضح کرتے ہیں کہ افغانستان میں کوئی ان کا پسندیدہ نہیں ہے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اسلامی دنیا کے سب سے اہم سنی ملک سعودی عرب نے مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ ادھر متحدہ عرب امارات نے بھی موجودہ افغان تنازع سے دوری برقرار رکھی ہے۔ قطر مسلم دنیا کا ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن افغان تنازع میں اس کا اہم کردار رہا ہے۔ طالبان کا سیاسی دفتر قطر میں ہی ہے۔