کابل: (ویب ڈیسک) افغانستان میں طالبان کی پے در پے کامیابیوں نے افغان حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے، جس کے بعد ملک میں عبوری حکومت کے قیام پر غور شروع کر دیا گیا ہے۔
افغان میڈیا کے مطابق افغانستان کے صدر اشرف غنی نے سیاسی رہنماؤں اور سابق جنگی سرداروں سے ہنگامی ملاقات کی ہے، ملاقات کے دوران افغان رہنماؤں ن طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے بااختیار ٹیم تشکیل دینے پر اتفاق کیا ہے۔
افغان میڈیا کے مطابق افغان مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبد اللہ عبد اللہ اور سینئر افغان رہنماؤں کے درمیان بھی اہم ملاقات ہوئی ہے، ملاقات کے دوران افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کا معاملہ زیر بحث آیا۔
افغان میڈیا کے مطابق افغانستان کے صوبے مزار شریف پر طالبان کے حملے مزید شدت اختیار کرگئے ہیں، طالبان مزار شریف پر کئی سمتوں سے حملہ آور ہوگئے، سابق گورنر اور جنگی سردار عطا محمد نور کی ملیشیا کا محاصرہ کر لیا ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق قطر نے افغان طالبان سے افغانستان میں جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا۔
قطر کے وزیر خارجہ نے مذاکرات کیلئے طالبان کے سربراہ ملا عبد الغنی برادر سے اہم ملاقات کی ہے، ملاقات کے دوران قطری وزیر خارجہ نے تشدد ختم کر کے جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق افغانستان کے اکثریتی علاقوں پر طالبان کے قبضے کے بعد صدر اشرف غنی استعفیٰ دیکر اہل خانہ سمیت بیرون ملک منتقل ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق افغان صدر اشرف غنی نے اپنے ساتھیوں سے مشورے کے بعد مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کے بعد وہ کسی تیسرے ملک اہل خانہ سمیت منتقل ہوجائیں گے۔
نیوز18 کا دعویٰ ہے کہ یہ انکشاف صدر اشرف غنی کے ایک اہم اور قریبی ساتھی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کیا ہے۔ اشرف غنی جلد مستعفی ہونے کا باضابطہ اعلان کریں گے۔
صوبہ بلخ سے تعلق رکھنے والے قانون دان عباس ابراہیم زادہ نے امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو بتایا ہے کہ فوج نے پہلے ہتھیار ڈالے جس سے حکومت کے حامی ملیشیا اور دیگر قوتوں کا حوصلہ پست ہوگیااور پھر انہوں نے بھی طالبان کے سامنے ہار مان لی۔
ابراہیم زادہ نے کہا کہ ہزاروں جنگجوؤں کی کمان کرنے والے دو سابق جنگجو کمانڈر عبدالرشید دوستم اور عطا محمد نور صوبے سے فرار ہو گئے ہیں اور ان کا ٹھکانہ نامعلوم ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق طالبان تین ہفتے سے بھی کم عرصے میں شمالی، مغربی اور جنوبی افغانستان کے زیادہ تر علاقوں پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔
رکن پارلیمان خالد اسد کے مطابق طالبان کابل کے جنوب میں لوگر صوبے پر مکمل قبضہ کر چکے ہیں اور انہوں نے مقامی حکام کو گرفتار کر لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کابل سے سات میل دور چار اسیاب ضلع تک پہنچ چکے ہیں۔
ایک اور رکن پارلیمان ہدا احمدی کا کہنا تھا کہ طالبان نے پاکستان کی سرحد کے ساتھ لگنے والے پکتیکا صوبے پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
شمالی بلخ صوبے کے گورنر کے ترجمان منیر احمد فرہاد کا کہنا ہے کہ سنیچر کی صبح طالبان نے شہر پر کئی اطراف سے حملہ کیا ہے، تاہم فوری طور پر جانی نقصان کی اطلاعات سامنے نہیں آئیں۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ ملک میں جاری حالیہ جنگ کے دوران افواج کو فعال کرنا ان کی سب سے بڑی ترجیح ہے اور اس کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق قوم کے نام مختصر ویڈیو پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ ملک کو خطرات کا سامنا ہے اور ان کو ملکی حالات کے بارے میں علم ہے۔ میں نے ملک میں سیاسی رہنماؤں اور ملک سے باہر شخصیات سے موجودہ صورتحال کے بارے میں مشورے شروع کیے ہیں اور بہت جلد نتائج کے بارے میں اپنے عوام کو آگاہ کروں گا۔ سکیورٹی فورسز اور شہدا کے خاندانوں کو تسلی دینا چاہتا ہوں۔
اشرف غنی نے کہا کہ ایک تاریخی مشن میں وہ عوام پر مسلط کی گئی جنگ میں مزید اموات نہیں ہونے دیں گے۔ اس لیے میں نے حکومت کے اندر اکابرین، سیاسی رہنماؤں، عوامی نمائندوں اور بین الاقوامی شراکت داروں سے مشاورت شروع کی ہے تاکہ سیاسی حل کے ذریعے افغانستان کے شہریوں کے لیے امن اور استحکام فراہم کیا جا سکے۔