نیو یارک: (ویب ڈیسک) امریکی خفیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی فوج افغانستان میں لڑائی میں مصروف فریقین کے درمیان شراکت اقتدارکے معاہدے کے بغیر واپس چلی گئی تو طالبان دو تین سال کے اندر ملک کے زیادہ تر حصوں کا انتظام سنبھال سکتے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے حکام کا نام ظاہر کیے بغیر ایک رپورٹ میں کہا کہ طالبان کی طرف سے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کی صورت میں اس بات کا امکان موجود ہے کہ شدت پسند عسکری تنظیم القاعدہ پھر افغانستان میں اپنے قدم جما لے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق جوبائیڈن نے فیصلہ کرنا ہے کہ آیا یکم مئی کی ڈیڈلائن کے مطابق افغانستان میں موجود 3500 امریکی فوجیوں کو واپس بلایا جائے یا نہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور طالبان کے درمیان فروری 2020 میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک معاہدہ ہوا تھا جس میں امریکی فوج کی افغانستان سے واپسی کی ڈیڈلائن پر اتفاق کیا گیا تھا۔
اخبار کے مطابق بعض امریکی حکام جو امریکی فوج کو افغانستان میں رکھنے کے حق میں ہیں، وہ خفیہ اداروں کی اس رپورٹ کو اس استدلال کے لیے استعمال کر رہے ہیں کہ امریکی فوجیوں کو ڈیڈلائن کے بعد افغانستان میں موجود رہنا چاہیے۔
تاہم وائٹ ہاؤس نے اس معاملے میں تبصرے سے انکار کر دیا ہے۔ اخبار نے مزید لکھا کہ خفیہ اداروں کا تجزیہ گذشتہ برس ٹرمپ انتظامیہ کے لیے تیار کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ افغانستان سے امریکی فوج کے مکمل انخلا کی ڈیڈلائن پوری کرنا مشکل ہوگا جس کے تحت تقریباً سات ہزار اتحادی فوجی بھی واپس جائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ وہ اگلے سال افغانستان میں ’امریکی فوجیوں کی موجودگی‘ نہیں دیکھتے اور اس بات کا امکان ہے کہ وہ ایک سال کے اندر امریکہ کی طویل ترین جنگ ختم کر دیں گے۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’مخصوص حکمت عملی کی بنیاد پر یکم مئی کی ڈیڈلائن کو پورا کرنا مشکل ہو گا۔ امریکی فوج کو نکالنا مشکل ہے۔ ہماری واپسی ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ کب ہو گی؟ لیکن ہم لمبے عرصے تک وہاں نہیں رہیں گے۔‘
اس سوال پر کہ کیا وہ 2022 میں بھی امریکی فوج کو افغانستان میں دیکھ رہے ہیں؟بائیڈن کا کہنا تھا: ’میں ایسی کوئی تصویر پیش نہیں کر سکتا۔‘
دوسری جانب طالبان نے جمعے کو کہا ہے کہ وہ ڈیڈلائن کے بعد بھی غیرملکی فورسز کی افغانستان کی موجودگی کی صورت میں ان کے خلاف دوبارہ جنگ کا آغاز کر دیں گے۔
اس سے پہلے امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے بھی 21 مارچ کو کابل کا دورہ کیا تھا، جہاں انہوں نے افغانستان کے صدر اشرف غنی سمیت سینیئر افغان حکام سے بات چیت کی تھی۔
افغان صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق فریقین نے جنگ زدہ ملک میں حالیہ مہینوں میں تشدد میں اضافے کی مذمت کرتے ہوئے موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک پائیدار اور منصفانہ امن عمل کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کا کہنا تھا کہ یہ تو واضح ہے کہ ملک میں تشدد کی سطح کافی بلند ہے۔ ہم حقیقت میں تشدد میں کمی دیکھنا چاہتے ہیں اور میرے خیال سے اگر اس میں کمی آجائے تو کچھ حقیقی نتیجہ خیز سفارتی اقدامات کے لیے ماحول تیار ہونے کا کام شروع ہوسکتا ہے۔‘۔