دوحہ: (ویب ڈیسک) افغانستان کیلئے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد ،قطری نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ شیخ محمد عبدالرحمان الثانی نے دوحہ میں طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے نائب لیڈر عبد الغنی برادر سے ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات کے بعد امریکی نمائندہ خصوصی قطر سے کابل واپس آئے اور افغان صدر اشرف غنی، قومی مفاہمتی کونسل کے چیئر مین عبد اللہ عبد اللہ سے ملاقات کی۔
افغان میڈیا کے مطابق یہ ملاقات ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے زاد حالیہ عرصے کے دوران پاکستان اور افغانستان کا دورہ کر چکے ہیں، کابل اور اسلام آباد میں زلمے نے امن کے لیے اعلیٰ رہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔
دوحہ میں طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے کہا ہے کہ ملاقات کے دوران دوحہ مذکرات پر عملدرآمد، افغانستان کی موجودہ صورتحال اور انٹرا افغان مذاکرات کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔
افغان میڈیا کے مطابق قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان رہنما ملا عبد الغنی برادر سے ملاقات کے بعد امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد دوبارہ افغانستان کے دارالحکومت کابل واپس آئے۔
افغان میڈیا کے مطابق کابل واپسی پر زلمے خلیل زاد نے صدر اشرف غنی، عبد اللہ عبد اللہ سمیت سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کی۔
یہ بھی پڑھیں: دوحہ: وزیر داخلہ کی قطری وزیراعظم سے ملاقات، دوطرفہ تعلقات کے فروغ پر بات چیت
افغان ایوان صدر کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق زلمے خلیل زاد نے اشرف غنی کو اپنے دورہ قطر سے متعلق آگاہ کیا اور افغان امن عمل سے متعلق آئندہ کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
قومی مفاہمتی کونسل کے چیئر مین عبد اللہ عبد اللہ نے کہا کہ زلمے خلیل زاد اور ان کے ہمراہ آنے والے وفد کے ساتھ تعمیری ملاقات کی ہے، ہم نے افغان امن عمل اور، ممکنہ سیاسی ہم آہنگی سے متعلق تبادلہ خیال کیا۔ ہم نے سیاسی حل اور امن کی کوششوں میں تیزی لانے کے لئے اپنی اپیل کا اعادہ کیا۔
دوسری طرف افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا سے 7 ہفتے قبل یہ بتایا گیا ہے کہ اس ملک میں ان فوجیوں کی کل تعداد پینٹاگون کے اعلان کردہ 2500 فوجیوں سے زیادہ ہے۔ لیکن نیویارک ٹائمز کی اطلاع ہے کہ افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی کل تعداد 3500 ہے ، جو پہلے کی اطلاع سے ایک ہزار زیادہ ہے۔ دوسری طرف ساڑھے تین ہزار امریکی فوجیوں کے علاوہ افغانستان میں نیٹو کے قریب 7000 فوجی بھی موجود ہیں۔ اس خبر سے مذاکرات کا عمل اور بھی پیچیدہ ہوسکتا ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان نے گذشتہ برس دوحہ امن معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت یہ شرط عائد کی گئی تھی کہ اگر تمام شرائط پوری ہو جائیں تو یکم مئی 2021 سے تمام غیر ملکی فوجی ملک چھوڑ دیں گے۔
متعدد امریکی اور یورپی ذرائع نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا ہے کہ ہزاروں فوجی افغانستان میں خصوصی آپریشن کر رہے ہیں اور وہ پینٹاگون اور سی آئی اے کے مشترکہ رینجرز کے ایک حصے کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ان قوتوں کا ایک اور حصہ افغانستان میں سفر کرنے والے عارضی یونٹوں کے ممبر ہیں۔
اُدھر متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے لیے افغان سفیر جاوید احمد نے کہا ہے کہ قطر میں تعطل کے شکار افغان امن مذاکرات کو دوسرے ملکوں میں بھی ہونا چاہیے۔
جاوید احمد کا کہنا ہے کہ امن مذاکرات کو ایک جگہ محدود نہیں کرنا چاہیے اور انہیں دوسرے مقامات جیسے کہ یورپ، ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں بھی منعقد ہونا چاہیے۔ قطر طالبان پر تشدد میں کمی لانے کے حوالے سے اپنا اہم کردار استعمال کر سکتا تھا لیکن اس نے اپنا اثر و رسوخ استعمال نہیں کیا۔ اگر وہ بطور میزبان طالبان رہنماؤں پر جنگ بندی یا تشدد میں کمی لانے کا مطالبہ کرتا تو ایسا ہو سکتا تھا۔
دوسری جانب قطرحکومت کے رابطہ دفتر کا کہنا ہے کہ ’دوحہ مذاکرات کی میزبانی کرتے ہوئے وہ افغانوں کی حمایت جاری رکھے گا اور وہ تشدد میں کمی کا خواہاں ہے تاکہ ملک میں امن اور سکیورٹی قائم رہ سکے۔ یہ حقیقت کہ افغان حکومت اور طالبان کے نمائندے مذاکرات کی میز پر موجود ہیں، ظاہر کرتی ہے مذاکرات کام کر رہے ہیں۔‘
رواں ہفتے روس افغان امن عمل کی میزبانی کرے گا، اگلے مہینے ترکی میں ان مذاکرات کا انعقاد کیا جائے گا جبکہ امریکہ نے ایک عبوری انتظامیہ کے قیام کا خیال پیش کیا ہے۔
اس سے قبل افغان وزیر داخلہ مسعود اندرابی نے کہا تھا کہ ملک سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد بھی افغان سیکیورٹی فورسز اپنے قدم جما سکتی ہیں۔
انہوں نے امریکی کی جانب سے اس تنبیہہ کو چیلنج کیا جس میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ امریکی فوج کی واپسی کی صورت میں طالبان سے تیزی سے مختلف علاقوں پر قبضہ جما لیں گے۔