لاہور: (دنیا میگزین) کورونا وائرس کو لے کر عالمی برادری متحرک ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ 27 دسمبر 2019ء کو پہلا کیس سامنے آنے پر دنیا یہ جان گئی تھی کہ ’’یہ اچھا وائرس نہیں ہے‘‘۔
وائرس کا ڈی این اے بالکل نیا، کچھ اور ہی قسم کا تھا اور ویکسین تیار نہ تھی۔ نئے ڈی این اے اور انوکھے سٹائل کی وجہ سے ہی کچھ سائنس دانوں نے اسے ’’انوکھا‘‘ کا نام دیا تھا۔ یہ واحد وائرس ہے جس کی علامات بیماری لگنے کے فوری بعد ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ کچھ وقت لیتی ہیں۔ کھانسی نہ چھینک، گلے میں خراش نہ ہی بخار یا ایسی کوئی اور علامت ظاہر نہیں کرتا۔
خفیہ فوج کی طرح انسانی جسم کے اندر پروان چڑھتا رہتا ہے۔ اس کی تصدیق کے لئے یہ بتانا ہی کافی ہے کہ کچھ مریضوں نے بیمار ہونے کے پانچ سے آٹھ دن بعد ڈاکٹروں سے رجوع کیا۔ اتنے دن وائرس جسم کے اندر پرورش پاتا رہا۔
ہسپتال میں زیر علاج رہنے کا دورانیہ پانچ سے بارہ دن ہے تاہم بعض مریض مجموعی طور پر چھ سے نو دن ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ بے فکر مریض جہاں چاہتا ہے چلا جاتا ہے، جس سے چاہتا ہے ملتا ہے۔ علامات بر وقت ظاہر نہ ہونے کی وجہ سے ایک مریض درجنوں دوسرے صحت مند افراد کو بیمار کر دیتا ہے۔ وائرس کا شکار افراد خود کو صحت مند سمجھتے ہوئے دوسروں سے بلا روک ٹوک ملتے رہتے ہیں جس سے وائرس چپکے سے دوسرے افراد میں سرایت کر جاتا ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کون کون بیمار ہے یا مرض کس سے کس کو لگا؟
شک ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاید وائرس کی کمزوری کی وجہ سے علامات بروقت ظاہر نہیں ہوتیں۔ علامات اس وقت ظاہر ہوتی ہیں جب یہ جسم کے اندر کچھ تقویت حاصل کر لیتا ہے۔ یہی پہلو خطرناک ہے۔ مریضوں کی تعداد میں اضافے کا سبب بھی یہی ہے۔ شہریوں کو صحت مند ماحول میں روکنے اور میل ملاپ ختم کرنے سے یہ وائرس بھی قید ہو گیا ہے۔
وائرس کے پہلے 245 کیسز ووہان میں سامنے آئے تھے۔ اسی لئے یہ بات یقین سے کہی جا رہی تھی کہ اس کا مرکز ووہان ہی ہے۔ مرض کی شدت کے پیش نظر سب سے زیادہ حفاظتی اقدامات کی ضرورت بھی یہیں ہے۔
اگرچہ حالیہ حملہ ہوانان(Huanan) کی ہول سیل مارکیٹ میں ہوا ہے۔ جنوری میں سامنے آنے والے اکثر مریضوں کا تعلق ’’ہوانان‘‘ کی ہول سیل سی فوڈ مارکیٹ سے ضرور نکلا ہے لیکن دسمبر کے کیس کا تعلق اس مارکیٹ سے نہ تھا۔
27 جنوری کو ایک صحافی Sahar Esfandiariنے عالمی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ کورونا وائرس کا مرکز ووہان نہیں ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ’’ووہان سے آنے جانے والوں کا بیجنگ میں مکمل طبی معائنہ کیاجا رہا ہے۔ اس کا جائزہ لینے کا بعد برطانوی میڈیکل جرنل ’’دی لانسٹ‘‘ نے انکشاف کیا ہے کہ عین ممکن ہے کہ کورونا وائرس کا مرکز ووہان کی جگہ کوئی اور علاقہ ہو کیونکہ 41 مریضوں کے طبی معائنے سے پتا چلا کہ ان میں سے 13 کا ووہان کی منڈی سے کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ اس منڈی کے قریب سے بھی نہیں پھٹکے تھے، نہ ہی انہوں نے کبھی کسی ایسے شخص سے ملاقات کی تھی جو ووہان سے آیا ہو۔
‘‘محقق نے یہ بھی بتایا کہ ہسپتال میں داخل ہونے والے پہلے مریض کا بھی ووہان کی منڈی سے تعلق نہ تھا۔یہ بھی کہا جا رہاہے کہ وائرس کی ’’جنم بھومی ‘‘ ایک سے زیادہ مقامات ہیں۔
عالمی منڈیاں سارس، ہسپانوی فلو اور سوائن فلو سے بھی متاثر ہوئی تھی۔ ’’سارس‘‘ سے چین کی معیشت 1.1 فیصد سکڑ گئی تھی۔ ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے خدمات کے شعبہ میں گراوٹ کا تناسب 2.6فیصد تھا۔
وقت نے انگڑائی لی اور چین چھٹی بڑی معیشت سے جمپ لگا کر دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی منزل حاصل کر چکا تھا لیکن وائرس نے عالمی معاشی نظام کو بھی جکڑ کر رکھ دیا ہے۔
سازشی تھیوری کے تحت اس کا تعلق معیشت سے جوڑا جا رہا ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایک طوفان مچا ہو اہے کہ یہ وائرس کسی غیر ملکی سائنسدان نے چین کو خراب کرنے کے لئے بڑے تجارتی مرکز ووہان میں چھوڑا۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کورونا وائرس کی سازشی تھیوریوں سے بھری پڑی ہیں ۔یہ عناصر نئی صورتحال کو بائیو وار سے تعبیر کر رہے ہیں۔
اسی کے اندر یہ بھی سوچ پنپ رہی ہے کہ کہیں ان پر کسی نے وائرس حملہ تو نہیں کیا؟ اس پس منظر میں وہاں غیر ملکی مصنوعات کی مانگ کم ہو سکتی ہے۔
روسی میڈیا نے الزام تراشی میں بہت جلدی کی۔ روسی میڈیا نے کورونا وائرس کو امریکہ کی بائیو جنگ کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ یہ وائرس امریکی سائنس دانوں نے لیب میں تیار کر کے چین میں چھوڑا ہے۔ یہ بائیو حملہ ہے۔
یہ بھی کہا گیا کہ جب ڈبلیو ایچ او نے پہلا اجلاس 22 جنوری کو بلایا، اس وقت کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 8 ہزار اور ہلاکتوں کا تناسب تین فیصد تک تھا۔
یعنی عالمی ایمرجنسی کے اعلان کے وقت یہ وائرس دوسرے وائرسوں سے کہیں کم خطرناک تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایمر جنسی کا اعلان امریکہ، چین تعلقات کے پیش نظر کیا گیا ہے۔
امریکی ادارے سی ڈی سی نے رواں برس کو امریکہ کے لئے فلو سیزن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ میں انفلوئینزا وائرس ایک ریاست سے دوسری ریاست میں پھیل رہا ہے۔ یہ پوری دہائی میں سب سے زیادہ خطرناک لہر ہے۔
رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2019ء سے جنوری کے آخر تک کئی لاکھ افراد انفلوئینزا کا شکار ہو چکے ہیں۔ امریکی ادارے نے کہا ہے کہ ’’امریکہ اپنا دھیان کرے، اس کی آبادیاں انفلوئینزا کے خطرے میں ہیں۔
امریکہ کے ’’ مرکز برائے احتیاط و انسداد امراض ‘‘(Centers for Disease Control and Prevention) کے تخمینے کے مطابق امریکہ میں جاری فلو سیزن سے 150000 امریکی ہسپتال میں داخل ہوئے جن میں سے آٹھ ہزار کو طبی سائنس بچانے میں ناکام رہی۔
گزشتہ برس فلو سے 34 ہزار افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔ امریکہ میں ہر سال فلو سے 12 ہزار سے 61 ہزار افراد موت کا تر نوالہ بنتے ہیں لیکن اس کا ذکر کسی نے نہیں سنا۔
عالمی اخبارات نے بھی ایک اودھم مچا رکھا ہے۔ تمام تحریرں کا لب لباب یہی ہے کہ اس سے چینی معیشت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان کے دباؤ میں آ کر عالمی اداروں نے اپنے مرکزی اور علاقائی دفاتر یا تو بند کر دیئے ہیں یا پھر انہیں بند کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔
چین کے کئی حصوں میں عالمی کمپنیوں نے فیکٹریاں لگا رکھی تھیں۔ امریکی حکومت کی جانب سے ٹریول گائیڈ منفی ہونے پر یہ کاروبار خود بخود رک جائے گا۔
کئی بڑے امریکی اداروں نے پہلے ہی اپنے دفاتر بند کرکے عملہ واپس بلا لیا ہے۔ جاپان سمیت باقی ممالک بھی سامان باندھ رہے ہیں۔ دوسرے ممالک امریکہ کی پیروی میں انہی خطوط پر سوچ رہے ہیں۔ اس لئے وائرس کے حملے سے چین کی معیشت ایک دم رک گئی ہے۔
ملک بھر میں تمام بڑی فیکٹریاں ، ہوٹلز اور کاروباری مراکز بند کر دیئے گئے ہیں،عالمی اور مقامی ٹرانسپورٹ سیکٹر بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔
یورپ ،امریکہ ، افریقہ اور ایشیائی ممالک کی جانب سے ٹریول گائیڈ منفی کرنے پر عالمی فضائی کمپنیوں نے بھی چین سے ناطہ توڑ لیا ہے۔چینیوں پر کئی ممالک کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں۔
میڈیا امریکی وزیر کی اس بات سے سو فیصد متفق ہے کہ چین میں اداروں کی بندش کے بعد امریکہ کو اپنا سریایہ واپس مل جائے گا۔ جس سے امریکہ میں روزگار کے نئے دروازے کھل جائیں گے۔
ماہرین کے مطابق یہ حملہ صحت سے زیادہ معیشت پر ہوا ہے۔ جبکہ چین نے خود بھی کئی ممالک سے ناطہ توڑ لیا ہے، وہ ہرگز نہیں چاہتا کہ یہ وائرس دنیا کے کسی بھی حصے میں پھیلے۔ ایک اندازے کے مطابق چینی معیشت میں62ارب ڈالر کی کمی آ سکتی ہے۔
اسی تناظر میں کچھ نے کہا کہ امریکی ارب پتی بل گیٹس کو وائرس کی تیاری کا پہلے سے علم تھا۔ یو ٹیوب اور ٹوئٹر وائرس کا کوئی نہ کوئی تعلق بل گیٹس سے جوڑتے رہے ،ان کے مطابق بل گیٹس نے نان سٹیٹ ایکٹر کی جانب سے بہت پہلے ہی تیزی سے پھیلنے والے کسی وائرس کی تیاری کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے ویکسین کی تیاری کے لئے کروڑ وں ڈالر دیئے تھے۔
بل گیٹس اینڈ ایملنڈا فائونڈیشن کی جانب سے ایسے کسی وائرس کی نشاندہی ان کے گلے پڑ گئی ہے۔بل گیٹس اور فانڈیشن کے مطابق ’’ایک فرضی بیماری بہت تیزی سے پھیلی جس نے 18 مہینوں میں 65 لاکھ افراد کوموت کی نیند سلا دیا تھا۔
بل گیٹس نے ’’ڈیلی ٹیلی گراف‘‘ کو بتایا تھا کہ ان کی فائونڈیشن کئی برسوں سے کسی انجانے وبائی مرض کے پھوٹ پڑنے سے پہلے اس کی ویکسین کی تیاری کے لئے فنڈز دیتی رہی ہے۔
بل گیٹس یہ بات کہہ چکے ہیں کہ نان سٹیٹ ایکٹرزتیزی سے پھیلنے والے خطرناک وائرس بنا سکتے ہیں۔ بل گیٹس نے Instuitute for Disease Modelingکے لئے ایک رپورٹ تیار کی تھی جس کے مطابق 1918میں ایک وائرس 5کروڑ افراد کی ہلاکت کا باعث بنا تھا۔اب اس قسم کا وائرس 3کروڑ افراد کو موت کی نیند سلا سکتا ہے۔ سائنس دانوں کا ایک گروپ ’’Coalition for Epidemic Preparedness Innovations (CEPI)‘‘ بھی اس سلسلے میں پیش پیش تھا۔
ان کو بھی وائرس کا علاج ڈھونڈنے کے لئے فنڈز مل رہے تھے ۔ کوئنز یونیورسٹی ، آسٹریلیاکے علاوہ تحقیق کے لئے (Moderna) بھی ڈالرز دیئے جا رہے تھے ۔یہ تینوں ادارے’’ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ‘‘ اور ’’نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشنز‘‘ کے لئے کام کر رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ان اداروں نے کورونا وائرس کے علاج کے لئے 30کیمیکلز کا بطور ویکسین ٹسٹ کیا ہے۔ 16ہفتوں کے اندر اندر نئی دوا بھی منظرعام پر آ جائے گی جس سے امریکہ پر ڈالروں کی بارش شروع ہو سکتی ہے ۔دو مزید کمپنیاں بھی ویکسین کی تیاری پر کام کر رہی ہیں ۔ان میں سے ایک کمپنی نے ’’مرس‘‘ کی ویکسن بھی تیار کی تھی۔
ٹوئٹر پر لوگوں نے سوال کیاکہ ’’بل گیٹس کو اس قسم کے وائرس کی تیاری کا علم کیسے ہوا؟کچھ یوٹوبیرز نے وائرس کا تعلق جان ہاکنز یونیورسٹی میں اکتوبر 2019میں پھیلنے والی وباء سے جوڑ ا ہے۔ یوٹیوب پر ایک اور سازشی تھیوری بھی وائرل ہوئی جس کے مطابق اس وائرس کو پیٹنٹ کرانے کی درخواست دائر کی گئی تھی ۔یہ تھیوری جان سیدر(Jordan Sadher) سمیت کئی افراد کی ذہنی اختراع تھی ۔ جان سیدر کا ایک ٹویٹ ہزارہا مرتبہ ری ٹوئٹ ہوا۔2015ء میں سرے میں ’’پرب رائٹ انسٹی ٹیوٹ‘‘ (Pirbright Institute) نے کورونا وائرس کے حقوق حاصل کرنے کے لئے پیٹنٹ کی درخواست دی تھی۔
برب رائٹ کے ترجمان نے تسلیم کیا کہ انہوں نے کورونا وائرس کی کمزور قسم لیب میں تیار کر لی تھی تاہم ان کے دعوے کے مطابق یہ وائرس پرندوں اور جانوروں کی ویکسین کی تیاری کے لئے بنایا گیا تھا۔یو ٹیوبرز نے الزام لگایا کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ وائرس چین میں انسانوں کے قتل کے لئے استعمال کر لیا گیا۔
سیدر نے خود سے سوال کیا، ’’ دنیا بھر میں خوف و ہراس پھیلانے کے لئے میڈیا کو بھی ا ستعمال کیا گیا؟ اور یہ کہ Cabal(مخصوص مفادات کے لئے کام کرنے والے سازشی گروہوں)کو روپے کی بھوک ہے،اسی لئے وہ اپنے بائیو ذخائر کو استعمال میں لا رہے ہیں؟تاہم مذکورہ ادارے پرپرب رائٹ کمپنی کے ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ’’ہم نے وائرس کو بہت کمزور کر دیا ہے ، یہ وائرس بیماری پیدا کرنے کے قابل نہیں ہیں انہیں صرف بطور ویکسین استعمال کیا جا سکتا ہے ‘‘۔
ترجمان نے یہ کبھی کہا کہ یہ وائرس بڑے پیمانے پر تیار نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس وقت بل گیٹس اینڈ ایملنڈا فائونڈیشن نے ضرورت کے مطابق فنڈز مہیا نہیں کئے تھے۔ترجمان نے مزید کہا کہ’’ویکسین بنانے کام جاری ہے لیکن اس کی تیاری مکمل نہیں ہوئی۔انہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر پھیلے ہوئے اس پروپیگنڈے کو بھی جھوٹ کا پلندا قرار دیا کہ وائرس کو پیٹنٹ کرا لیا گیاتھا۔
انہوں نے کہا،’’وائرس کو رجسٹر کرانے کے لئے پیٹنٹ کا عمل 2015ء میں مکمل کر لیا گیا تھا لیکن اسے پیٹنٹ نہیں کرایا گیا تھا۔لیکن ان سب اداروں اور افراد نے ان افواہوں کی تردید کی۔
یہ درست ہے کہ سارس وائرس کے وقت چین دنیا کی چھٹی بڑی طاقت تھا، اب یہ دوسری بڑی معیشت ہے۔سارس کے حملے کے وقت چین کی معیشت عالمی جی ڈی پی کا4فیصد تھی اب 17فیصد ہے۔ چین میں وائرس کے تازہ بحران کے عالمی معیشت پر تین گنا زیادہ اثرات مرتبہ ہوسکتے ہیں۔
پرچون،ہوٹل،تفریحی انڈسٹریز ا ور ٹورازم چین کی جی ڈی پی کا 42فیصد ہے،یہ تمام شعبے بری طرح متاثر ہوے ہیں۔چین کے 44فیصد لائیو سٹاکس دیہات میں ہیں۔دیہی علاقے سیل ہونے سے ان کی قوت خرید جواب دے گئی ہے۔پاکستان کو بسیں مہیا کرنے والی ڈونگ فینگ کمپنی سب سے زیادہ متاثر ہونے والے اداروں میں شامل ہے۔
2019ء میں چین کی جی ڈی پی14.55ارب ٹریلین ڈالر تھی۔دنیا کا سب سے بڑا مینو فیکچرر بھی چین کے سوا کوئی نہیں۔لیکن وائرس کی روک تھام کے لئے چین نے اپنی مارکیٹوں کو خود ہی تالے لگا دیئے ہیں۔5کروڑ آبادی والے 16شہروں میں پہیہ جام ہے۔ وائرس کا نشانہ بننے والا علاقہ چین کا معاشی حب ہے۔
ان 16 صوبوں یا شہروں سے چین کی دو تہائی پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ان کا مرکز ووہان ہے۔چینی حکومت نے کاروباری مراکز کو تالے لگانے کے بعد صنعتوں کا پہیہ بھی ایک مہینے کے لئے روک دیا ہے۔
چین نے اشیائے ضرورت کی خریدو فروخت روک کر صرف صحت پر توجہ مرکوز کر دی ہے۔یہ عمل ایک ماہ تک جاری رہنے کا امکان ہے۔ ایلومینیم، تانبے، سٹیل، نکل، پٹرولیم مصنوعات اورپام آئل سمیت کئی مصنوعات کا سب سے بڑا خریدار چین تھا۔ اب نہیں ہے۔مانگ میں کمی کئی ہفتوں تک جاری رہنے کا اندیشہ ہے جس سے یورپی معیشتیں بھی گراوٹ کا شکار ہو سکتی ہیں۔
چیئرمین یو ایس فیڈرل ریزرو جیروم پاول (Jerome Powell) نے کہا کہ ’’چین کی عالمی معاشی اہمیت سے مفر ممکن نہیں ،چین میں ہلکا سا معاشی جھٹکا عالمی معیشت میں ہل چل مچا سکتا ہے ۔ چین کے قریبی ممالک ، جاپان اور تائیوان پر زیادہ فرق پڑ سکتا ہے۔چند ایک یورپی ممالک کے سمیت چین سے زیادہ تجارت کرنے والے ممالک بھی معاشی بحران کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ دو سیاسی حریف بھارت اور جاپان بھی چینی مصنوعات کے بڑے خریدار ہیں۔یہ دونوں ممالک یورپی یونین سے بھی زیادہ اہمیت چین کو دے رہے ہیں، برازیلی مصنوعات کی سب سے بڑی منڈی چین کے سوا اور کون سا ملک ہو سکتا تھا۔
عالمی منڈی میں چند ہفتوں کے اندر اندر ہی ان اہم مصنوعات کی قیمتوں میں 12فیصد تک کمی ہو گئی ہے۔پام آئل کی قیمت میں 9.6فیصد ، تانبے کی قیمت میں 12.1 فیصد، پٹرولیم مصنوعات کی ایک بڑی منڈی’’ برینٹ‘‘ میں خام تیل کی قیمت میں 10.1فیصد کمی سے یورپی منڈیاں بحران سے دوچار ہو رہی ہیں۔تدارک نہ کیا گیا تو عالمی ترقی کے اشاریوں کا حصول ناممکن ہو جائے گا۔
کاروبار رکنے سے غربت اور بے روزگاری میں اضافے کا اندیشہ ہے ۔دوسری طرف گزشتہ چندہفتوں کے اندر اندر عالمی منڈی میں سونے کی قیمت میں 1.5فیصد اضافہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ لوگوں نے اپنا سرمایہ سونے کی شکل میں محفوظ کر لیا ہے۔یہ سرمایہ عالمی صنعت و تجارت سے نکل گیا ہے۔
کئی ممالک نے اپنا سرمایہ چینی کرنسی سے نکال کر سونے ،ڈالر یا پائونڈ میں تبدیل کر لیا ہے۔ تیل کی درآمد میں سب سے آگے ہے۔کئی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی بڑی وجہ چین کی بڑھتی ہوئی مانگ تھی۔ آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے ماہر معاشیات واروک میکب بن (Warwick McKibbin) کے مطابق’’نوول کورونا وائرس کے اثرات سارس کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدید ہو سکتے ہیں۔
امریکی وزیر تجارت کا بیان کچھ الگ ہی ہے ،انہیں اپنے ملک میں معاشی ترقی اور روزگار کی فکر ہے۔کہتے ہیں ’’اس وائرس کا انجام امریکی معیشت کے لئے سکون کی گولی جیسا ہے‘‘۔امریکی وزیر ولبر راس نے چین میں وائرس کو اپنے ملک کے لئے دولت کمانے کی سیڑھی قرا دیا۔انہوں نے کہا کہ اس سے امریکہ میں نوکریاں واپس آ جائیں گی۔ ’’موڈیز‘‘ نے بھی وارننگ جاری کی ہے کہ قابو نہ پانے کی صورت میں عالمی معاشی نظام خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔
201ء میں 16.3کروڑ چینیوں نے دوران سیاحت 277ارب ڈالر غیر ملکیوں کے حوالے کر دیئے ۔تھائی لینڈکے 30فیصداور آسٹریلیا کے15فیصد ٹوررا سٹ چین سے ہی آتے ہیں۔1.30 ارب چینی باشندے کاروں، خوشبوئوں، کاسمیٹکس اورمہنگے ملبوسات سمیت کئی دیگر اہم برانڈز کے بڑے خریدار ہیں بلکہ کئی ممالک میں بڑے برانڈز ان کے دم سے ہی چل رہے تھے۔
چین کی مڈل کلاس سیاحت پر دوسرے ممالک سے کہیں زیادہ خرچ کرتی ہے۔ان کا شمار عالمی سطح پر زیادہ ڈالر خرچ کرنے والے سیاحوں میں ہوتا ہے۔ ’’پیسہ پھینک ،تماشا دیکھ‘‘والی بات ہے جہاں جاتے ہیں کچھ دے کر ہی آتے ہیں۔
پیرس میں بھی چینی سیاح لگژری آئٹمز کی خریداری کے ذریعے اربوں ڈالر فرانس اور دوسرے ممالک کو دے کر جاتے تھے۔چینیوں کی وجہ سے فرانس میں لگژری مصنوعات کی منڈی میں 2018 میں 5فیصد اضافہ ہوا تھا۔
کپڑے کی مصنوعات، بیوٹی سے متعلق سامان کی مارکیٹ بھی چینی پیش پیش ہیں،بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ کئی برانڈز چینیوں کے دم سے چل ر ہے ہیں۔کئی ممالک میں ان کا شانگ مجموعی مارکیٹ کا30فیصد ہے۔
اکثر یورپی اور ایشیائی ممالک نے ٹریول گائیڈز جاری کراپنے شہریوں کو چین جانے سے روک دیا ہے۔یورپ میں چینیوں کے مقبول ہوٹل ویران پڑ گئے ہیں۔اٹلی میں متعدد چینی نسلی امتیاز کا نشانہ بنے ہیں، ان سے خریداری روکنے کے اعلانات بھی کئے گئے ہیں۔ نسل پرستی پر مبنی ان واقعات پرعالمی اداروں نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن وہ کر کیا سکتے ہیں۔
تھائی لینڈ چینی سیاحوں کی پسندیدہ ترین جگہ چین ہی تھا۔کئی ممالک نے چینی سیاحوں کی آمد و رفت تا حکم ثانی روک دی ہے۔امریکہ، سنگا پور،ہانگ کانگ اور فلپائن بھی ان ممالک میں شامل ہیں۔روس اور منگولیا نے سرحدیں بند کرکے اپنے شہریوں کی حفاظت کا انتظام کیا ہے۔
متحدہ عرب امارات ہویابرطانیہ ،امریکہ سے لے کر افریقہ تک ہر فضائی کمپنی نے چین کے لئے اپنی پروازیں محدود کر دی ہیں۔بڑی جاپانی ٹریول ایجنسیوں کو لاکھوں ٹکٹ منسوخ کرنا پڑ گئے ہیں۔
سماجی رابطوں کی کئی ویب سائٹس نے بھی اپنے کارکنوں کو چین کے غیر ضروری سفر سے روک دیا ہے۔ہانک کانگ میں ماس ٹرانزٹ ٹرینیں بھی خالی کھڑی ہیں ۔ ایس ایم بی سی نکو سکیورٹیز (SMBC Nikko Securities) کے مطابق ’’سفری پابندیاں چھ ماہ تک جاری رہنے کی صورت میں چینی سیاحوں سے آمدنی میں83.1ارب ڈالر ( عالمی جی ڈی کا 0.1 فیصد)کی کمی آ سکتی ہے۔گزشتہ تین مہینوں میں دوسرے ممالک کے 30لاکھ سیاحوں نے چین کو ترجیح دی تھی مگر اب نہیں۔
چین کی جانب سے منڈیاں بند کرنے کے بعد کئی قسم کے کاروبار جمود کا شکار ہو گئے ہیں جن میں مینوفیکچرنگ انڈسٹری اور رئیل اسٹیٹ کے بزنس بھی شامل ہیں۔جائیدادوںکے بزنس میں ٹھہرائو کی بڑی وجہ وائرس سے پاک علاقوں کی تلاش کا عمل بھی شامل ہے۔ لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کل کو ان کے لئے کون کون سے علاقے محفوظ رہیں گے۔
اسی لئے چین میں جائیدادوں کے بزنس کی بحالی میں وقت لگ سکتا ہے۔ یہ عمل ناصرف یہ چین کے لئے اچھا نہیں ہے بلکہ اس سے چین میں سرمایہ کاری کرنے والے تمام ممالک کی معیشت بھی بیٹھ سکتی ہے، چین کو نقصان پہنچانے کی کوئی بھی کوشش امریکہ اور یورپی کے سرمایہ کاروں کو بھی مہنگی پڑ سکتی ہے۔ صوبہ ہبئی (Hebei)سے ایک کروڑ محنت کش دوسرے صوبوں میں روزگار تلاش کرتے تھے، انہیں ملازمت کے حصول میں مشکل پیش آ سکتی ہے۔
مرکزی بینک ’’پیپلز بینک آف چائنا‘‘نے منڈیاں کھلنے کے بعد بینکوں کے پاس مناسب سرمایہ کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لئے سرمائے کاانتظام بھی کردیا ہے ۔اس اقدام سے مارکیٹوں کے کھلنے کے بعد پیدا ہونے والے کساد سے بچنے میں مدد ملے گی۔
متاثرہ علاقوں میں بینکوں نے شرح سود میں پہلے ہی کمی کر دی ہے۔بینک آف چائنا نے متاثر علاقوں میں ذریعہ معاش تباہ ہونے پر قرضوں کی ادائیگی میں رعایت دینے کا اعلان کیا ہے جبکہ حکومت نے تباہ شدہ بزنس کی بحالی کے لئے کئی ارب ڈالر مختص کردیئے ہیں۔
کاروبار کی بحالی کے لئے شرح سود میں مزید کمی لانانہ گی ورنہ بے روزگاری میں اضافے کا خدشہ ہے۔ مینو فیکچرنگ انڈسٹری کی بحالی میں بھی وقت لگے گا۔کیونکہ دنیا بھر میں چینی مصنوعات پر عائد غیر اعلانیہ پابندی عائد ہے۔یہ پابندی اگرچہ بلا جواز ہے ،لیکن عالمی سوچ اور پالیسیوں کے عین مطابق ہے۔ امریکی ارب پتی ایلن مسک کہاں پیچھے رہنے والے تھے، انہوں نے چین میں لگایا گیاکار پلانٹ بند کر دیا ہے۔ایپل کو کمپیوٹرز اور دیگر مصنوعات کے پارٹس ووہان سے ملنابند ہو گئے ہیں۔
چینیوں کا اب سب سے بڑا دشمن کورونا وائرس ہے جس نے سماجی ڈھانچے کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔اس وائرس کا خاتمہ ان کی اولین ترجیح ہے۔چین نے انسانی بربادی کی بجائے انسانیت کی بقاء کی خاطر متاثرہ علاقوں میں ڈرونز سے سپرے شروع کر دیا ہے۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ چین کے تمام علاقوں میں ڈرونز کی ایک فوج بھی کورونا وائرس سے نبرد آزما ہے اور چین کی حکومت کورونا وائرس پر ’’‘ڈرون حملے ‘‘ کر رہی ہے۔
جنوب مغربی صوبہ سی چوان(Sichuan) میں بھی بڑے بڑے ڈرونزکی فوج ظفر موج کورونا وائرس کو شکست دینے میں حکومت کی مدد کر رہی ہے۔وائرس کی شدت والے علاقوں جیسا کہ شیلین (Jilin)، شان ڈونگ(Shandong)اورژے ژیانگ(Zhejiang) کے علاقوں میں ڈرونز کازیادہ ا ستعمال کیا جا رہا ہے۔ ڈرونز کے سپرے سے وائسرس کا حملہ روکنے میں مدد ملی ہے۔اگر چہ وائرس سے حفاظت کے کیمیکلز دریافت نہیں ہوئے ہیں لیکن چینی حکومت سارس سے نجات والے کیمیکلز کو استعمال کر رہی ہے۔پولیس اور دیگر اداروں کے علاوہ نجی شخصیات بھی حکام کے ساتھ ہیں۔ کراپ پروٹیکشن افسرچن چنگ ہونگ (Chin Chung hong) نے اپنے ڈرون سے 30جنوری کو پورے علاقے میں سپرے کروانے کے بعد 16ہزار مربع میٹر میں سپرے کرنے والا بڑا ڈرون حکومت کے حوالے کر دیا ہے۔ زرعی مقاصد میں زیر استعمال ڈرونز بھی محکمہ صحت نے لے لئے ہیں۔
روسی فلو
سینٹ پیٹرز برگ سے شروع ہونے والی اس وبا نے جلد ہی یورپ سمیت پوری دنیاکو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔وائرس نے غالباََ 10لاکھ افرد کی جان لے لی۔
ہسپانوی فلو
وائرس سے جنم لینے والے اس فلو میں مبتلا مریضوں سے ہسپتال بھرگئے تھے ۔وائرس کا حملہ اس قدر شدید تھا کہ چند دنوں کے اندر اندر ہی مردہ خانے لاشوں سے بھر گئے تھے۔ہر طرح کی ویکسین اور اینٹی بائیوٹکس استعمال کر کے دیکھ لی گئیں مگر وائرس نے قابو آنا تھا نہ آیا۔ فلو نے اس وقت دنیا کی ایک تہائی آبادی (50 کروڑ )کو بیمار کر دیا تھا۔مرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ پوری طرح گنتی بھی نہیں کی جاسکی ۔ اتنا ضرور کہا گیا کہ 5سے10کروڑ کے درمیان ہلاکتیں ہوئی ہوں گی۔ صرف امریکہ میں مرنے والوں کی تعداد67.5لاکھ تھی۔
‘’ایشین فلو1957-58‘‘
فلو کی یہ قسم A (H2N2) سنگاپور سے دنیا بھر میں پھیلی ،جسے بعدازاں ایشین فلو کا نام دیا گیاحالانکہ اس کا ایشیا سے کوئی تعلق نہ تھا۔اس مرض سے امریکہ میں1.16لاکھ اور دنیا بھر میں 11لاکھ افراد ہلاک ہوئے ۔اس نے زیادہ تر نوجوانوں او ربچوں کو نشانہ بنایا۔سب سے پہلے 6 نومبر1957ء کوڈینورکے پوسٹ آفس میں کام کرنے والے ایک ملازم ہیلین ہرٹز(Helen Hertz) کو فلو ہوا۔ ڈاکٹر اے ای جیمز نے دوا دے کر گھر بھیج دیا۔دیکھتے ہی دیکھتے اسی ڈاک خانے میں مزید 400کارکنوں کو شدید فلو ہو گیا۔اس کے بعد یہ مرض قابو سے باہر ہو گیا۔
’’ہانگ کانگ فلو 1968ء‘‘
ہانگ کانگ فلو کی وبا1968ء میں دنیا بھر میں پھیل گئی۔اس کا حملہ 1969-70تک جاری رہا۔ 1957میں فلو کے جس وائرس نے دنیا بھر میں اپنا اثر دکھایا تھا حالیہ وبائی وائرس بھی اس سے ملتا جلتا ہے ۔یہ پروٹین کی ایک ایسی شکل اختیار کر کے حملہ آور ہوا تھا کہ مدافعتی نظام اسے پہچان ہی نہ سکالہٰذا اس نے وائرس کو اپنا ہی سمجھ کر مزاحمت ہی نہ کی۔یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ وائرس پولیس کا روپ دھار کر حملہ آور ہوا تھا۔اس سے امریکہ میں ایک لاکھ اور دنیا بھر میں10لاکھ اموات ہوئی تھیں۔
اپریل 2009ء میں پھیلنے والایہ وائرس سوائن فلو کہلایا۔اس کامرکز امریکہ تھا وہیں سے یہ دنیا بھر میں پھیلا ۔اس کا کیمیائی نام(H1N1)pdm09رکھا گیا۔ دوسرے سوائن فلو سے مختلف ہونے کی وجہ سے اس کا علاج بھی ممکن نہ تھا۔امریکی ادارہ صحت کے مطابق 151700 سے 575400کے درمیان ہلاکتیں ہوئیں۔ وائرس کی غیر معمولی بات یہ تھی کہ اگرچہ انفلوئنزا سے 70 تا 90 فیصد اموات 65برس سے اوپر کی ہوتی ہیں لیکن اس کیس میں ہلاک ہونے والوں میں 80فیصد 65 برس سے کم عمر تھے۔
33 سالہ مریضہ کی علامتیں
لان ژو کے ہسپتال میں داخل ہونے والی 33سالہ خاتون کے جسم کا درجہ حرارت 102فارن ہائیٹ تھا۔5دن سے کھانسی کی شکایت تھی،سانس بھی اکھڑ رہی تھی،جسم میں سفید خلیوں کی تعداد بہت کم رہ گئی تھی، ڈینگی میں بھی یہ کیفیت ہوسکتی ہے۔نمونیہ کی علامات ظاہر ہونے سے تین دن پہلے سے پھیپھڑوں میں کچھ تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں۔پہلے پہل مریضہ کو نمونیہ کا شکار سمجھا گیا لیکن پھیپھڑوں پر کئی جگہ سفید دھبے ظاہر ہونا شروع ہوگئے۔تین دن علاج کے بعد بھی سفید دھبے کم ہونے کی بجائے بڑھتے جا رہے تھے،علاج غیر موثر تھا۔ریڈیالوجسٹوں نے سفید دھبوں کو’’ frosted glass opacity‘‘ قرار دیا۔ ڈاکٹروں کے مطابق پھیپھڑوں میں مائع کی ایک قسم بھی پائی گئی ۔یہ کیا تھی؟
شروع شروع میں سفید دھبوں کے بارے میں ڈاکٹروں نے یہ رائے قائم کی کہ پھیپھڑے ہوا بھرنے سے ایسے لگ رہے ہیں۔اس کے مزید ایکسریز کئے گئے۔ اب ڈاکٹروں کو شبہ ہوا کہ یہ نمونیہ نہیں ،کچھ اور ہے۔ڈاکٹروں کا یہ جملہ سن کر مریضہ کی سانسیں اکھڑنے لگیں،’’ اس کے پھییھڑوں میں کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں‘‘۔ڈاکٹروں نے مریضہ کو (Interferon ) کے علاج میں دی جانے والی پروٹین دی، عورت کے پھیپھڑوں کو کھولنے کے لئے کئی طرح کی اینٹی بائیوٹکس کے علاوہ سٹرائیڈز بھی دیئے گئے لیکن ریڈیولوجسٹ پارس لاکھانی (Paras Lakhani)کے مطابق یہ تمام دوائیں ناکام ہوئیں۔انہوں نے کہا کہ یہ وائرس pathogensگروپ سے تعلق رکھتا ہے۔اس گروپ کے وائرس پھیپڑوں میں ہلکی انفیکشن کا سبب بنتے ہیں،کامن کولڈ بھی انہی وائرس سے ہوتا ہے۔