نئی دہلی: (ویب ڈیسک) دنیا کے بلند ترین محاذ سیاچن پر بھارتی فوج کو سہولیات کی عدم ادائیگی کا سچ بھارتی میڈیا سامنے لے آیا، فوجیوں کے پاس لباس ہے نہ ہی بہتر غذا جبکہ چشموں کی بھی 98 فیصد تک قلت ہے۔ چار سال سے نئی وردیاں بھی نہیں ملیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق کامپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ سیاچن سمیت مختلف برفیلے علاقوں میں تعینات بھارتی فوجیوں کو موسم سرما کے خصوصی لباس، دیگر لوازمات اور غذا کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق سی اے جی نے پارلیمان میں اپنی رپورٹ پیش کی ہے جس میں اس نے فوج کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
کامپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوج بلندی پر تعینات اپنے فوجیوں کو مخصوص لباس، راشن اور رہنے کی مناسب جگہ مہیا کرانے میں ناکام رہی ہے۔
وزارت دفاع نے کامپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا کو بتایا ہے کہ ان خامیوں کو دور کیا جائے گا لیکن منگل کی صبح سے ہی سیاچن انڈین سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہا ہے۔
اخبار دی ہندو میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق کامپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا (سی اے جی) کی یہ رپورٹ 16-2015 سے 18-2017 کے درمیان فوج کو سہولیات فراہم کیے جانے کے حوالے سے ہے۔
کامپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلندی پر پہنے جانے والے لباس اور وہاں استعمال ہونے والے سازو سامان کی فراہمی میں تقریباً چار سال کی تاخیر کے سبب فوجیوں کے پاس ضروری کپڑے اور سازو سامان کی سخت قلت ہو گئی ہے۔ برف میں لگانے کے لیے چشموں کی شدید قلت ہے۔ یہ قلت 62 سے 98 فیصد تک ہے۔
‘
کامپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق فوجیوں کو مختلف کاموں میں استعمال ہونے والے بوٹ بھی نومبر 2015ء سے ستمبر 2016ء تک جاری نہیں کیے گئے اور انھیں اپنے پرانے بوٹوں سے کام چلانا پڑ رہا ہے۔
ایک فوجی افسر نے’دی ٹائمز آف انڈیا‘ کو بتایا ہے کہ سیاچن میں تعینات ایک سپاہی کے لباس پر ایک لاکھ روپے تک خرچ آتا ہے۔
دوسری طرف بھارتی فوج کے سابق میجر جنرل اشوک مہتہ نے ’’بی بی سی‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ سی اے جی کی رپورٹ میں جو کہا گیا ہے وہ انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ ہم کسی بھی غیر متوقع صورتِ حال کیلئے تیار نہیں ہیں۔
جنرل اشوک مہتہ کا مزید کہنا ہے کہ جوانوں کے پاس اس طرح کی چیزوں کی کمی پہلے بھی رہی ہے اور فوج کے پاس ہتھیاروں اور دیگر ساز و سامان کی کمی کا معاملہ واضح طور پر 1999ء کی کارگل جنگ کے وقت سامنے آیا تھا۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں مشہور انگریزی اخبار دی ٹیلی گراف کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بھارتی کی افواج کے 90 ہزار جوانوں کو پیسوں کی کمی کے سبب کئی طرح کی سہولیات نہیں مل سکیں۔
سوشل میڈیا پر ایک صارف محمد فیصل علی کا کہنا تھا کہ مسٹر نریندر مودی کیا آپ آج تک کے سب سے زیادہ فوج نواز وزیراعظم نہیں ہیں؟ پھر آپ کے دور حکومت میں ایسا کیونکر ہوا؟
انھوں نے مزید لکھا کہ آپ لاکھوں کے سوٹ پہنتے ہیں، مشروم کھاتے ہیں لیکن آپ کے فوجی سیاچن میں پریشانیوں کا شکار ہیں۔ سی اے جی نے ملک کے مخالفین کو بے نقاب کر دیا ہے۔ مودی جعلی وطن پرست ہیں۔‘
کانگریس رہنما سوپریا سولے نے ٹویٹ کی کہ سی اے جی کی رپورٹ کے مطابق سیاچن، لداخ اور ڈوکلام میں فوجیوں کو مناسب کھانا، کپڑے اور ضروری سامان نہیں مل رہا اور 2015 سے ہمارے فوجیوں کو جوتے تک نہیں ملے ہیں۔
اس ٹویٹ کے جواب میں ڈینس سی کورین نامی ایک صارف نے لکھا کہ لیکن ان کا استعمال موجودہ حکومت پروپیگینڈے میں ضرور کرتی ہے۔
واٹ ایپ یونیورسٹی نامی صارف نے لکھا کہ بی جے پی خود کو قوم پرست پارٹی کے طور پر پیش کرتی ہے۔ یہ لوگ انڈیا سے زیادہ پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ یوگی نے کل 48 سیکنڈ میں آٹھ بار پاکستان کا نام لیا۔ اور سیاچن میں فوجیوں کو کپڑے اور غذا کی قلت کا سامنا ہے۔
اتفاق کی بات ہے کہ گزشتہ روز ہی بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے دہلی اسمبلی کے انتخابات میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے فوجیوں کی حالت کو بہتر بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔
خیال رہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان سیاچن دنیا کی سب سے بلند سرحد ہے اور یہ دونوں ممالک کی سکیورٹی کے لیے انتہائی اہم مقام تصور کیا جاتا ہے۔