مقبوضہ وادی میں بھارت مردہ باد نعروں کی گونج، کشمیریوں‌ کے مظاہرے

Last Updated On 25 August,2019 10:07 am

سرینگر: (ویب ڈیسک) مقبوضہ کشمیر میں قابض انتظامیہ نے لوگوں کو غیر قانونی بھارتی قبضے اور جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی اقدام کیخلاف احتجاجی مظاہروں سے روکنے کیلئے وادی میں مسلسل 20ویں روز بھی سخت کرفیو اور دیگر پابندیوں کا نفاذ جاری رکھا۔ سورہ میں بھارتی فوج کی شیلنگ سے ایک خاتون شہید ہو گئی ہے جبکہ پوری وادی بھارت مردہ باد کے نعروں سے گونج اُٹھی۔

کشمیر میڈیاسروس کے مطابق سخت محاصرے کے باعث کشمیریوں کو اس وقت بچوں کی غذا اور زندگی بچانے والی ادویات سمیت بنیادی اشیائے ضروریہ کی شدید قلت کا سا منا ہے اور مقبوضہ وادی بڑے انسانی المیے کا منظر پیش کررہی ہے۔ لاکھوں لوگ محصور ہو کر رہ گئے ہیں اور جموں وکشمیر اس کے باشندوں کیلئے بڑی جیل میں تبدیل ہو چکا ہے۔ قابض انتظامیہ نے 5 اگست سے جب مودی کی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کیا تو اس وقت سے وادی میں سخت کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیرکے علاقے اننت ناگ میں بھارتی فوجی نے خود کشی کر لی

مقبوضہ کشمیر کے اطراف و اکناف میں بڑی تعداد میں تعینات بھارتی فوجی اور پولیس اہلکار لوگوں کو گھروں سے باہر آنے کی اجازت نہیں دے رہے۔ انتظامیہ نے 5 اگست سے انٹرنیٹ سروس اور ٹیلی ویژن چینلوں کی نشریات بھی بند کر کے اطلاعات کی فراہمی کا سلسلہ بھی معطل کر رکھا ہے۔ کرفیواور دیگر پابندیوں کے باعث اخبارات اپنے آن لائن ایڈیشن اپ ڈیٹ نہیں کر پائے جبکہ اکثر اخبارات کی اشاعت بھی بند ہے۔

بھارتی فوج کی جانب سے سرینگر کے علاقے سورہ میں مظاہرین پر شیلنگ کی اس دوران شیلنگ کی زد میں آ کر ایک خاتون شہید ہو گئی۔ خاتون کے شوہر کا کہنا ہے کہ کشمیر میں کچھ بھی نارمل نہیں ہے، یہ ان کا میڈیا ہے وہ کچھ بھی کہہ رہے ہیں، وہ جو ہمارے ارد گرد ہو رہا ہے نہیں دکھا سکتے وہ یہاں سب نارمل دکھا رہے ہیں لیکن کشمیر میں کچھ بھی معمول پر نہیں، میرے بچے روز مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ماما کیوں چلی گئیں، یہ بہت تکلیف دہ ہے۔


ادھر سید علی گیلانی ، میر واعظ عمر فاروق سمیت تقریباً تمام حریت رہنما گھروں اور جیلوں میں نظر بند ہیں۔ سینکڑوں سیاسی رہنماﺅں اور کارکنوں سمیت 10 ہزار سے زائد کشمیری حراست میں لیے گئے ہیں۔ جیلوں اور تھانوں میں گنجائش کم پڑ گئی ہے اور حراست میں لیے گئے بہت سے افراد کو عارضی حراستی مراکزمیں رکھا گیا ہے۔

عارضی حراستی مرکز کے طور پر استعمال میں لائے جانے والے سرینگر کے ہوٹل کو اب سب جیل قرار دیا گیا ہے۔ ہوٹل میں 50 کے قریب سیاسی رہنما زیر حراست ہیں۔

ادھرمقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ بھارتی آلہ کاروں کی ریشہ دوانیوں سے ہوشیار رہیں جو کشمیریوں کو غلام بنانے اور انکی مذہبی شناخت سمیت ہر چیز چھیننے کیلئے راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ جیسی ہندوانتہا پسند تنظیموں اور ہندو توا کی دیگر قوتوں کو مقبوضہ علاقے میں لانے کیلئے اپنے بھارتی آقاﺅں سے رابطے کر رہے ہیں۔ یہ انتباہ حریت کارکنوں کی طرف سے پوسٹروں اور پمفلٹوں کے ذریعے جاری کیا گیا ہے۔

حریت رہنماؤں کی جانب سے بھارتی آلہ کاروں سے بھی کہا گیا ہے کہ حریت کا راستہ اپنائیں اور ہندا توا قوتوں کو کسی طرح کی سہولت فراہم کرنے کی صورت میں انہیں سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بھارتی حکام نے اپوزیشن جماعتوں کے وفد کو سرینگر ائر پورٹ سے واپس بھیج دیا۔ یہ اقدام اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ نریندر مودی کی سربراہی میں قائم فرقہ پرست حکومت بھارتی سیاست دانوں کو بھی مقبوضہ علاقے کی صورتحال کا مشاہدہ کرنے کی اجازت دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔

دریں اثنا ضلع اسلام آباد میں بھارتی سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے افسر نے رہائش گاہ پر سروس رائفل سے خود کشی کر لی۔ اس تازہ واقعے سے جنوری 2007 سے مقبوضہ علاقے میں خود کشی کرنے والے بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی تعداد بڑھ کر 440 ہوگئی ہے۔